جب شعر میں دو الفاظ ایسے استعمال کیے جائیں جن میں سے ایک کو دوسرے کا ترجمہ کہا جاسکے، تو اسے صنعتِ ترجمۃ اللفظ کہا جاتا ہے۔
شاعر بعض اوقات تقابل و موازنہ کے لیے یا اپنے کسی خیال کی توسیع کے لیے بار بار ایک ہی لفظ استعمال کرنے کی بجائے، ایک بار استعمال کیے گئے لفظ کا مترادف استعمال کرتا ہے، جسے پچھلے لفظ کا ترجمہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یوں کلام میں اس صنعت کا دَر آنا کسی شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر پیرزادہ قاسم کے اس شعر میں :
دائرہ وار ہی تو ہیں عشق کے راستے تمام
راہ بدل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
راستے اور راہ میں صنعتِ ترجمۃ اللفظ ہے۔
(’’ارتباطِ حرف و معنی‘‘ از ’’عاصم ثقلینؔ‘‘، پبلشرز ’’فکشن ہاؤس، لاہور‘‘، سنہ اشاعت 2015ء، صفحہ نمبر 115 سے انتخاب)