ہمیں یورپ سے سیکھنے کی ضرورت ہے

جب سے ہماری یہ دنیا وجود میں آئی ہے، تب سے طاقت ور افراد، قبیلے اور ملک کمزور لوگوں، قبیلوں اور ملکوں پر غالب آنے کے لیے ان پر حملے کرتے اور جنگیں مسلط کرتے رہتے ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ ہو یا افغانستان، عراق، لیبیا اور شام پر مسلط کی جانے والی یک طرفہ جنگی جارحیت، ہر ایک کے نتیجے میں کمزورملکوں کو تباہی و بربادی کا عذاب جھیلنا پڑا اور امن کی فاختہ جس کی چونچ میں زیتون کی شاخ ہوا کرتی تھی، باردو کے غبار میں کہیں گم ہوگئی۔ گذشتہ صدی کی جنگوں کے ہولناک اثرات موجودہ صدی میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں اور شائد ہمارے بعد آنے والی نسلوں کو بھی ان جنگوں کے اثرات کی بازگشت سنائی دیتی رہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں نے کبھی تنازعات اور مسائل کو حل نہیں کیا بلکہ بنی نوع انسان کے لیے مزید مسائل اور مشکلات کو جنم دیا ہے۔6 برس جاری رہنے والی دوسری عالمی جنگ نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا اور اس جنگ کی ہولناکیوں کے اثرات سے نکلنے کے لیے برطانیہ اوردیگر کئی ملکوں کو 30 سے 40 برس کا عرصہ لگ گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی سیاسی قیادت کی دور اندیشی اور بصیرت کی داد دینی پڑتی ہے کہ جنھوں نے جنگی جنوں کی تباہی وبربادی سے ایسا سبق سیکھا کہ اپنے ہمسایہ اور یورپی ممالک سے جنگ کے ہر امکان کا راستہ بند کردیا۔ یورپ کے وہ ممالک جو دوسری جنگ عظیم تک ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے درپے تھے، 1949ء میں کونسل آف یورپ اور 1957ء میں یورپین اکنامک کمیونٹی جیسے باہمی تعاون کے ادارے بنا کر ایک دوسرے کی اقتصادی حالت سنوارنے میں مدد کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ممالک جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی نئی نئی منزلوں کو دریافت کر رہے ہیں۔ دفاعی ساز و سامان اور جدید اسلحے کی صنعت بھی ان ممالک میں دن دو گنی اور رات چو گنی ترقی کر رہی ہے، مگر یورپ کے یہ ترقی یافتہ ممالک اس جدید اسلحے کو اب ایک دوسرے کے خلاف جارجیت کے لیے استعمال نہیں کرتے بلکہ سعودی عرب اور مڈل ایسٹ کے دیگر ممالک کے علاوہ انڈیا اور پاکستان کو فروخت کرتے ہیں اور ان خطوں میں جنگ کے امکانات کو ہوا دینے کے لیے کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کرتے رہتے ہیں۔
یہ حقیقت بڑی فکر انگیز ہے کہ دوسری جنگِ عظیم میں ایک دوسرے کے دشمن یورپی ممالک آج ایک دوسرے کے دوست ہیں اور ان کی سرحدوں پر خاردار باڑ اور فوجی پہرے کی بجائے محض چند امیگریشن افسرسفری دستاویزات کی پڑتال کرتے نظر آتے ہیں۔ ان ملکوں نے جنگوں کے تلخ تجربات کے بعد یہ محسوس کرلیا کہ ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرنے میں سب کی عافیت ہے۔ جنگی جارحیت سے ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی بجائے اقتصادی تعاون کے ذریعے ایک دوسرے کے لیے ترقی اور خوشحالی کے رستوں کو ہموار کیا جائے۔ اسی سوچ اور دور اندیشی کی وجہ سے آج کا یورپ پُرامن اور خوشحال ہے۔
ان حالات کا موازنہ اگر برصغیر کے حالات سے کیا جائے، تو حیرانی ہوتی ہے کہ یورپ نے جنگ کی تباہ کاریوں سے جو سبق سیکھا ہے، ہم کیوں نہیں سیکھ سکے؟ اس تناظر میں اگر انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے، تو دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت کی بصیرت یعنی وِژن اور دور اندیشی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ غربت، افلاس اور پس ماندگی نے دونوں ملکوں کے عوام اور خاص طور پر بھارتی جنتا کو روٹی، کپڑے اور مکان کی بنیادی ضرورت سے محروم کر رکھا ہے، مگر اس کے باوجود بھارت ہر سال 66 بلین ڈالر سے زیادہ رقم اپنی فوج کو پالنے اور دفاع پر خرچ کرتا ہے اور ہر سال اس فوجی اور دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
ایک لمحے کے لیے فرض کر لیا جائے کہ اگر پاکستان، بھارت، چین، افغانستان، سری لنکا، ایران اور خطے کے دیگر ممالک یورپ کی طرح اپنے ماضی کی تلخیوں سے سبق سیکھیں، اوراپنی بالا دستی کے جنون میں مبتلا ہونے یا ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے اپنے وسائل ضائع کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے اقتصادی تعاون کریں، تو پورا خطہ یورپ کی طرح امن اور خوشحالی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ وہ خطیر رقم جو چین، بھارت، ایران، پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک اپنے دفاع پر خرچ کرتے ہیں، یہ رقم ان ملکوں سے جہالت اور غربت کے خاتمے کے لیے کام آسکتی ہے۔
یہ ایک اٹل تاریخی حقیقت ہے کہ جو ملک بھی اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کی بجائے اپنے وسائل کا بڑا حصہ اپنے ہمسایہ ممالک کو کمزور کرنے اور وہاں افراتفری پھیلانے پر صرف کرتے رہے ہیں، وہ کبھی مستحکم نہیں ہوئے۔ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کے تناظر میں دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ جو ممالک (امریکہ، جرمنی، فرانس، برطانیہ وغیرہ) انہیں اسلحہ بیچتے ہیں اور دفاعی سازو سامان (بشمول جنگی طیارے، بحری جہاز،آبدوز) فراہم کرتے ہیں، وہ کب چاہیں گے کہ دو ہمسایہ ممالک کے درمیان امن قائم ہو جائے اور اُن کے درمیان خوش گوار تعلقات استوار ہو جائیں اور پھر انہیں اسلحہ اور دفاعی ساز و سامان خریدنے کی ضرورت نہ رہے۔ یہ اسلحہ ساز ملکوں کی عالمی سازش ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کو کبھی خوش گوار اور پُرامن نہ ہونے دیں، تنازعات کو ہوا دیتے رہیں، تاکہ اُن کے اسلحے کی صنعت فروغ پاتی رہے۔
جارج بُش سینئر کے زمانے میں نیو ورلڈ آرڈر اور جارج بش جونیئر کے دور میں دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم کا جو شوشا چھوڑا گیا تھا، آج مڈل ایسٹ یعنی مشرق وسطیٰ اور برصغیر کے حالات اسی امریکی سازش کا شاخسانہ ہیں۔ اگر ہم غور کریں کہ سعودی عرب جیسا ملک ہر سال اپنے دفاع پر 70 بلین ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کرتا ہے، تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوتا ہے؟ ظاہر ہے امریکہ ہی اس کا سب سے بڑا مفاد اٹھانے والا ملک ہے جس نے عراق، لیبیا اور شام میں جنگیں مسلط کر کے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ سعودی عرب اور مڈل ایسٹ کے دیگر ممالک کو اپنے دفاع کے لیے امریکہ کی ضرورت محسوس ہوتی رہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جو عالمی جنگ یامہم شروع کی تھی، اس کے نتیجے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کم ہونے کی بجائے دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمان ممالک کو ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ ان حالات کا سب سے زیادہ فائدہ امریکہ نے اُٹھایا ہے اور اُٹھا رہا ہے۔ مڈل ایسٹ میں اُسے مکمل طور پر بالادستی حاصل ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اب خلیجی ممالک رفتہ رفتہ اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کرنے لگے ہیں یا کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
امریکہ اب پاکستان، بھارت اور افغانستان میں بھی اسی طرح کی بالادستی قائم کرنے کے لیے برسرِپیکار ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ان تینوں ملکوں کے درمیان کبھی خوشگوار تعلقات کو استوار نہیں ہونے دے گا۔ چین اور ایران کو کمزور کرنے کے لیے امریکہ اس خطے میں ہر حربہ آزمانے کی کوشش کررہا ہے۔ ان حالات میں بھارت، پاکستان اور افغانستان کے حکمرانوں اور اربابِ اختیار کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اسلحہ بیچنے والے ملکوں کی سازش کو سمجھنا چاہیے۔ ان تینوں ممالک کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی بجائے یورپی ممالک کی طرح اپنے ماضی کی تلخیوں اور جنگی جارحیت کے نقصانات سے سبق سیکھیں اور پُرامن ہمسایوں کی طرح ایک دوسرے سے معاشی تعاون کریں اور اپنے دفاع کے لیے اسلحے کی خریداری پر خرچ کی جانے والی خطیر رقم کو اپنے ملک سے غربت، جہالت اور پسماندگی کے خاتمے پر صرف کریں۔ پاکستان ہو یا بھارت اور افغانستان یہ ایک دوسرے کے دشمن نہیں۔ ان تینوں ملکوں کا مشترکہ دشمن بھوک، افلاس اور جہالت ہے جس کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔