کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’تاریخ خود کو دُہراتی ہے۔‘‘
الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم جماعتوں کا مظاہرہ، حکومت گراؤ مشن کا تسلسل تھا۔ پی ڈی ایم تاحال قبل از وقت انتخابات کے مطالبے پر قائم ہے، تاہم اس میں واضح دراڑ بھی نظر آرہی ہے کہ بیشتر جماعتیں ’’اِن ہاؤس‘‘ تبدیلی کے لیے تحریکِ عدم اعتماد کو ہی حکومت کے خلاف مؤثر حکمت عملی سمجھتی ہیں۔ گو کہ حکومت اس حوالے سے بالکل مطمئن ہے اور بقولِ وفاقی وزیرداخلہ، ’’وزیراعظم قطعی پریشان نہیں!‘‘
خیال رہے کہ جنوری کا ہی مہینا اور سال2011ء تھا، جب پی پی پی کے وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف این آر اُو کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے چھے آپشن پر جواب داخل نہ کرانے پر اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ توہینِ عدالت کی کارروائی میں بالآخر سید یوسف رضا گیلانی کو وزراتِ عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا۔
یہاں یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے دباؤ تھا کہ قبل از وقت انتخابات کرائے جائیں، لیکن پی پی پی نے اپوزیشن کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے اس لیے انکار کردیا تھا کہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہے۔ اس وقت پی پی پی کی اتحادی جماعتوں میں عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ق) تک شامل تھی۔
ایم کیو ایم کی کنگ میکر حیثیت کو صدر زرداری نے ق لیگ کو اپنے ساتھ شامل کرکے ختم کردیا تھا۔ اس لیے ’’اِن ہاؤس‘‘ تبدیلی کے لیے تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات موجود نہیں تھے۔ واضح رہے کہ 2 مارچ کو سینیٹ کے الیکشن بھی ہونا تھے۔ اس لیے مملکت میں غیر متوقع معاملات پر سیاسی فضا میں تبدیلیوں کی قیاس آرائیاں اور بے یقینی عروج پر تھی۔
چوہدری شجاعت حسین اُس وقت اظہار کرچکے تھے کہ وہ نواز شریف کی جانب سے پی پی پی کے خلاف تحریک چلانے کے لیے اتحاد نہیں کرسکتے، تاہم انہوں نے قبل از وقت انتخابات پر مذاکرات کا عندیہ ضرور دیا تھا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ قبل از وقت انتخابات کرائے جائیں، تو وہ ہمارے ساتھ مل بیٹھ کر بات کریں۔ قبل از وقت انتخابات کا ماحول بن رہا ہے۔ الیکشن قبل از وقت ہوسکتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
تاریخ ایک بار پھر ایسے دوراہے پر ہے کہ اپوزیشن قبل از وقت انتخابات کے لیے ہر سیاسی آپشن استعمال کررہی ہے۔ الیکشن کمیشن میں ’’فارن فنڈنگ کیس‘‘ کا اچانک کھل جانا، ’’براڈ شیٹ سیکنڈل‘‘ میں حکومت پر دباؤ اور اتحادی جماعتوں کا حکمران جماعت سے مثبت تعلقات میں رخنہ، سیاسی منظر نامے میں انتشار و خلفشار کی نشان دہی کررہا ہے۔ گو ماضی میں پی پی پی بدترین سیاسی صورتِ حال اور وزیرِ اعظم کو عدالتی فیصلے کے باعث کھونے کے باوجود اپنی پارلیمانی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی، اور پہلی بار انتقالِ اقتدار مدت مکمل ہونے پر پُر امن اور جمہوری طریقے سے کیا گیا۔
بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی کئی سیاسی آزمائشوں اور ایک بار پھرعدالتی فیصلے کے باعث وزیراعظم کھونے کے باوجود پارلیمانی مدت کو مکمل کیا۔ یوں اقتدار دوسری بار پُرامن اور جمہوری طریقے سے موجودہ حکومت کو منتقل ہوگیا۔
قارئین، پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ سب پہلی مرتبہ ہورہا تھا اور توقع کی جا رہی تھی کہ جمہوری روایات کو مزید مضبوط کیا جائے گا، تاہم بدقسمتی سے حالات اب بھی ماضی کی رویوں کے عکاس ہیں۔ موجودہ حکومت کو قبل از وقت رخصت کرنے کے لیے ’’پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ‘‘ (پی ڈی ایم) اپنے ایجنڈے کے مطابق عمل پیرا ہے ۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ کتنی کامیاب یا ناکام ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی ان حالات کا سامنا ہوچکا اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپوزیشن اگر اس طرح حکومتیں گرانے لگی، تو شاید پاکستان میں کبھی کوئی سیاسی جماعت اقتدار کی مدت پوری نہ کرسکے ۔
پارلیمنٹ ہی ملک کا سپریم ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس اَمر کا ادارک کرنا چاہیے کہ ریاست کے دیگر ستونوں یعنی عدلیہ اور فوج کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں بھی آئین نے کچھ ذمہ داریاں تقویض کررکھی ہیں، جن کو پورا کرنے کا حلف بھی اٹھا رکھا ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے کہ مرکزی حیثیت کی حامل ہونے کے سبب حکومت سبھی اداروں کو اپنے ساتھ لے کر چلے اور سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کے مطابق انہیں تسلیم بھی کرے۔
اس سے قبل بھی جو حکومتیں بنیں، وہ ازخود نہیں آئیں یا بزورِ طاقت قابض نہیں ہوئیں، انہیں بھی سیاسی مینڈیٹ ہی ملا۔ گو کہ اپوزیشن کے ساتھ سیاسی محاذ آرائیاں روایتی رہیں، لیکن ان کے سیاسی مینڈیٹ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پی ٹی آئی سے قبل جتنی حکومتیں بنیں، کیاا نہیں کسی کا اعتماد حاصل نہیں تھا؟ یہ عمل غیر جمہوری سوچ کی عکاسی کرے گا۔
ماضی کی حکومتوں نے بھی یہی غلطی دوہرائی تھیں کہ اداروں اور ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ کو ساتھ لے کر نہیں چلیں، ورنہ ملکی ترقی اور قومی مسائل کے حل کی رفتار تیز ہوجاتی۔ اس وقت بھی ایسی کوئی صورتِ حال سامنے نہیں آرہی اور ملک میں مسلسل بے چینی کی کیفیت ہے۔ حکومت کو چایے کہ اس بے چینی اور بے یقینی کو ختم کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے، تاکہ حالات واضح ہوسکیں اور جمود کی شکار جمہوریت کی گاڑی بغیر کسی دقت کے آگے بڑھ سکے۔
موجودہ جمہوری سسٹم کو جاری رکھنے میں سب کی بھلائی ہے۔ کیوں کہ کوئی دوسرا نظام لانے سے بھی مسائل کا حل فوری نہیں نکل سکتا۔ اس عبوری دور پر اکتفا کرتے ہوئے نت نئے تجربات اپنانے سے گریز کرنا ہوگا۔ نازک مواقع پر تمام فیصلے سوچ بچار کے بعد کرنے چاہئیں، نہ کہ سیاسی اختلافات کو بنیاد بنا کر ملکی پالیسی مرتب دی جائے۔
اب ہر قدم احتیاط سے اٹھانے کی ضرورت بڑھ چکی ہے۔ یہاں بار بار یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آئین نے تمام اداروں کی حدود متعین کررکھی ہیں۔ ان حالات میں مملکت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر آنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ نظام میں بہتری کے لیے تبدیلی لانے کا راستہ صرف پارلیمان سے گزرتا ہے۔ انتخابی اصلاحات اور اداروں کی متعین ذمہ داریوں کی حدود کو ممکن بنانے کے لیے پارلیمان ہی وہ راستہ ہے جہاں سے تبدیلی کی تمام شاخیں گزرتی ہیں۔
بیک جنبشِ قلم اپنی مرضی سے اداروں کو چلانے کا حق نہ تو حکمران جماعت کے پاس ہے اور نہ حزب اختلاف کے پاس ۔ یہ چھوٹا سا نکتہ سمجھنے میں سب کی بھلائی ہے۔
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔