آہ بے نظیر بھٹو!

دسمبر کا مہینا پاکستان کی تاریخ میں نہایت ہی مایوس کن اور تباہ کن رہا۔ اس ماہ میں تین ایسے واقعات رونما ہوئے کہ جس نے پوری قوم کو مجموعی طور پر رُلا دیا۔
پہلے سنہ 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ ہوا۔
اس کے بعد ہماری معصوم کلیوں کو دہشت گردوں نے خیبر پختون خوا میں بڑی بے دردی سے مسل دیا کہ جن کا غم آج بھی قوم واسطے ناقابلِ برداشت ہے۔
ان دو واقعات خاص کر ’’المیۂ مشرقی پاکستان‘‘ پر تفصیل سے لکھ چکا ہوں، لیکن اب چوں کہ دسمبر کا آخری ہفتہ ہے، اس وجہ سے آج میرا موضوع وہ واقعہ ہے کہ جس نے پاکستان کی تاریخ کا رُخ ایک دفعہ پھر موڑ دیا۔
یہ واقعہ 27 دسمبر کی شام معروف لیاقت باغ میں پیش آیا۔ اُسی لیاقت باغ میں کہ جو کبھی ’’کمپنی باغ‘‘ تھا اور جب اسی جگہ ہمارے پہلے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نام زد وزیرِ اعظم کو گولی مار دی گئی، تو اس کا نام خان لیاقت علی خان کے نام پر ’’لیاقت باغ‘‘ رکھ دیا گیا تھا۔ اسی لیاقت باغ میں ایک دھماکا ہوا اور چند گولیاں نکلیں اور اگلے ہی لمحے ایک خاتون کی خون آلود لاش گاڑی میں گھری۔ یہ خاتون بس ایک خاتون نہ تھی۔ اس کا قتل بس ایک عورت کا قتل نہ تھا، بلکہ یہ قتل ایک امید کا قتل تھا۔ ایک سوچ کا قتل تھا۔ ایک نظریہ کا قتل تھا۔
جی، محترمہ بے نظیر بھٹو جمہوری دنیا کی اول اور کم عمر خاتون وزیر اعظم تھیں۔ دنیا کے نقشے پر موجود ایک رجعت پسند مذہبی ملک بلکہ پوری اسلام دنیا کی اولین ترین خاتون وزیرِ اعظم تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو غیر معمولی صلاحیتوں سے مزین ایک قابل ترین اور بہادر ترین خاتون تھیں۔ یہ 21 جون 1953ء کی ایک گرم شام تھی، جب کراچی کے ایک خوبرو بیرسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے گھر ایک ننھی پری کی آمد ہوئی۔ چوں کہ وہ بیرسٹر اپنی ایک بہن جو بچپن میں فوت ہو گئی تھی اور وہ اس سے بہت جذباتی لگاؤ رکھتا تھا، سو اس نے اپنی اس بیٹی کا نام اپنی مرحومہ بہن کے نام پر بے نظیر رکھا۔ اور پھر عالم نے دیکھا کہ یہ بچی اسم بامسما بے نظیر ہی ثابت ہوئی۔
چوں کہ پیدائش کے وقت بے نظیر کا رنگ بہت زرد سا تھا، اس کی وجہ سے اس کے والد نے اس کا نام پنکی رکھا۔ کسی کو کیا پتا تھا کہ یہ پاپا کی پنکی ایک دن ہوگا جب دنیا کی نامور مدبر اور سیاست دان بنے گی۔
پنکی جب تھوڑی بڑی ہوئی، تو گرائمر سکول سے تعلیم کی شروعات کی۔ پھر مری جا کر تعلیم حاصل کرنا شروع کیا۔ اسی دوران اس کا لائق باپ جو نہ صرف جونا گڑھ کے سابقہ دیوان جو کہ اس وقت ایک قسم کا وزیر اعظم ہوتا تھا، کا بیٹا اور کراچی کی سوشل سرگرمیوں کی جان تھا، اپنی قابلیت کی بنیاد پر وزیر بن چکا تھا۔ پھر پنکی کی تعلیم اور اس کے والد کی ترقی ایک ساتھ بڑھتی گئی۔ جب پنکی کا والد اس ملک کا بلا شرکتِ غیرے حکمران بنا، پنکی لنکن سے آکسفورڈ تک کا سفر کامیابی سے طے کرتی گئی اور ایک دن آکسفورڈ کی یونین کی اول ایشین مسلم خاتون طالب علم صدر منتخب ہوگئی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب پاکستان واپس آئی، تو بھٹو صاحب نے ان کو اپنے ساتھ وزراتِ خارجہ میں بٹھایا، لیکن قسمت کو شاید ایسا منظور نہ تھا اور اس کے بعد بہت جلد ہی ملک کے سیاسی حالات بدل گئے۔ ایک سیاسی تحریک کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا لگ گیا، اور بھٹو صاحب کو گرفتار کرلیا گیا۔ بھٹو کے دونوں بیٹے ملک سے فرار ہو کر لندن چلے گئے اور سیاست عملاً محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاتھ آگئی۔ بہت کم عمری میں بی بی کو نہایت ہی سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومتِ وقت نے ان کی جماعت پر سختیاں کیں۔ بے شمار کارکنان کو موت کی سزا سنا دی گئی۔ بے شمار کو کوڑے مارے گئے۔ لاتعداد جیلوں میں بند کیے گئے۔ سیکڑوں جلا وطن کر دیے گئے اور اسی دوران ایک جھوٹے مقدمے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے والد کو موت کی سزا دے دی گئی۔
یہ نہایت ہی صبر آزما لمحات تھے، جب وہ سہالہ میں والدہ کے ساتھ گرفتار تھیں، اور ان کے والد کو پھانسی دے کر دفن کر دیا گیا۔ ان کو والد کے آخری دیدار سے مرحوم رکھا گیا۔ اس کے بعد بی بی کو جلد ہی جلا وطن کر دیا گیا۔ دورانِ جلا وطنی انہوں نے اپنی سیاسی جدو جہد جاری رکھی، اور اسی دوران ان کو اپنے ایک بھائی کا غم سہنا پڑا۔اس کے بعد بی بی کی زندگی کی دوسری سیاسی اننگز کا بھرپور آغاز ہوا، جب محمد خان جونیجو کے دور میں ملک میں جذوی سیاسی آزادی ملی، تو محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جلا وطنی کے بعد وطن لوٹ آئی۔ ہر طرف عوام کا جمِ غفیر تھا۔
آج جب ملک میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور تحریکِ انصاف میں سے کس کا جلسہ بڑا تھا؟ پر بحث جاری ہے، تو کوئی اپریل 86ء پر غور نہیں کرتا۔
اپریل سنہ 86ء کا وہ جلسہ یقینی طور پر آگاہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی اجتماع تھا۔ محترمہ نے مکمل دلیری سے اس وقت کے آمر کو للکارا۔ تمام تر مشکلات اور جان کے خطرے کے باجود محترمہ نے اپنا سیاسی سفر جاری رکھا، اور بالاآخر 2 دسمبر 1988ء میں وہ ملک کی وزیراعظم بن گئی، لیکن ان کے خلاف سازشی ٹولے کی کارروائیاں جاری رہیں اور ان کو سیاست سے نکال باہر کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں، لیکن بی بی دو دفعہ وزیرِ اعظم بنی اور دو دفعہ قائدِ حزب اختلاف۔
اس کے بعد ملک میں ایک دفعہ پھر آمریت آئی اور محترمہ کو جلاوطن ہونا پڑا۔ پھر یکم اکتوبر 2007ء کو محترمہ اپنی تیسری سیاسی اننگز کھیلنے واسطے کراچی اُتری۔ یہ محترمہ کی زندگی کی خطرناک ترین اننگز تھی۔ بین الاقوامی سطح پر عموماً اور پاکستان میں خصوصاً دہشت گردی عروج پر تھی۔ محترمہ کا استقبال آتے ہی دو زوردار دھماکوں سے کیا گیا، جس میں درجنوں لوگ جان بحق ہوگئے۔
واپسی سے پہلے محترمہ کو دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں جن میں برطانیہ، امریکہ، افغان، سعودیہ، امارات، ایران اور پاکستان کی شامل تھیں، نے واضح کر دیا تھا کہ ان کی جان کو شدید خطرہ ہے، لیکن محترمہ نے مکمل دلیری سے دہشت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہر جگہ دہشت گردوں کو للکارا۔ اپنی ہر تقریر میں محترمہ نے مکمل جرأت سے دہشت گردوں پر یہ واضح کیا کہ ان کے واسطے کوئی گنجائش نہیں۔
اس کے ساتھ محترمہ نے دنیا پر یہ بھی واضح کر دیا کہ اب عوام کی طاقت تسلیم کی جائے گی۔ ملک میں امریکی مفادات کی پالیسیاں نہیں چلنے دی جائیں گی۔ اب ہمارا فیصلہ اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور مظفر آباد کرے گا، نہ کہ لندن اور واشنگٹن۔ یوں یہ چومکھی جنگ اس دلیر خاتون نے شروع کی۔ نتیجتاً آمریت دشمن بنی۔ مغرب دشمن بن گیا۔ مذہبی جنونیت پرست دشمن بن گئے اور بی بی حق و قوم کا علم لے کر میدان جنگ میں آگے آگئی۔ کراچی دھماکا، کوئٹہ دھماکا پھر ملا کنڈ دھماکا ہوا، لیکن بی بی نے ہار ماننے سے انکار کر دیا۔ بالآخر وہی ہوا جس سے محترمہ کو پہلے ہی آگاہ کیا گیا تھا۔ محترمہ جمہوریت، عوامی حقوق اور امن پسندی کی جنگ جیت گئی، لیکن زندگی کی بازی ہار گئی۔
بہرحال محترمہ کی شخصیت اور کردار اب تاریخ کا حصہ ہے اور مؤرخ ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو تاریخِ عالم اور پاکستان واسطے کیا مقام رکھتی تھی! لیکن ایک بات کا اقرار محترمہ کے شدید ترین ناقدین بھی کرتے ہیں کہ بی بی ایک اعلا تعلیم یافتہ، محنتی اور بہادر خاتون تھی۔ خاص کر جب بی بی 2007ء کو واپس آئی، تو وہ ایک سیاست دان کے بجائے ایک مدبر کا روپ دھار چکی تھی۔ وہ بہت سی بین الاقوامی سیاست کی حکمت عملیوں کو سمجھ چکی تھی اور محترمہ کا یہ دور شاید پاکستان واسطے نہایت ہی سنہری دور ہوتا، لیکن بے شک بین الاقوامی چوہدریوں اور ملک کے اندر غاصب اور عوام دشمن عناصر کو یہ قطعی منظور نہ تھا۔ ماضیِ قریب میں بھی محترمہ کے والد کو اس کی سزا دی جا چکی تھی۔ سو ان عناصر واسطے اب محترمہ کو راستے سے ہٹانا مجبوری تھی۔
بہرحال محترمہ بے نظیر بھٹو نے پوری زندگی بہت جد و جہد میں، مشکل حالات میں اور مکمل بہادری سے سیاست کی اور آخرِ کار اسی سیاسی جد و جہد میں اﷲ کو پیاری ہوگئی۔
قارئین کرام! اگر ستائیس دسمبر کا حادثہ نہ ہوتا تو شاید آج پاکستان کے حالات اس پاکستان سے بہت بہتر ہوتے ۔ ہم دعا گو ہیں کہ خدا اس بہادر خاتون کو اجر رحمت میں جگہ دے ۔ اور ان کے نام پر سیاست کرنے والوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔
بقولِ شاعر
انہی کے فیض سے بازارِ عقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے
…………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔