اُردو لغت نویسی کے تیسرے دور میں ہمیں ایسی لغات ملتی ہیں جن میں اردو یا مقامی الفاظ تو ملتے ہیں لیکن چوں کہ فارسی کا رعب دلوں پر چھایا ہوا تھا اور فارسی کی ایک سرکاری اور درباری حیثیت بھی تھی، لہٰذا ان لغات میں تشریح یا وضاحت فارسی زبان میں ہیں، یا ان میں اُردو الفاظ کی وضاحت محض فارسی مترادفات کے ذریعے کی گئی ہے۔ ایسی ہی ایک لغت سترھویں صدی عیسوی کے اواخر یعنی عالمگیری دور کے ایک مصنف عبدالواسع ہانسوی کی مرتب ’’غرائب اللغات‘‘ ہے جس کو اُردو کی پہلی لغت کہا جاتا ہے۔
سید عبداللہ کے مطابق ’’غرائب اللغات‘‘ کے قدیم ترین دست یاب نسخے کا سالِ کتابت 60-1159 ہجری (یعنی 47-1746ء) ہے لیکن یہ اس سے پہلے تالیف کی جاچکی تھی۔ سراج الدین علی خان آرزو (1687ء تا 1765ء) نے اسے نوادر الالفاظ کے نام سے 1156 ہجری یعنی 1743 عیسوی میں مرتب کیا اور اسے ایک عالمانہ کتاب بنا دیا۔ یہ درست ہے کہ ’’غرائب اللغات‘‘ اردو کی پہلی باقاعدہ لغت ہے۔ بابائے اُردو مولوی عبدالحق اور بابائے اُردو ثانی سید عبداللہ دونوں اسے اُردو کی اولین لغت تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس میں دراصل اُردو یا مقامی الفاظ کو بنیادی اندراج قرار دے کر ان کی تشریح فارسی میں کی گئی ہے۔ ہانسوی دراصل ایک مدرس تھے اور ان کی قابلیت بھی اعلیٰ پائے کی نہ تھی۔ اور یہ لغت انھوں نے لکھی بھی وسطانیہ درجے کے طالب علموں کے لیے تھی۔ انھوں نے ایک ’’نصاب نامہ‘‘ بھی لکھا تھا اور ان کی لغت نویسی پر بھی ان کی مدرسی کی گہری چھاپ ہے۔ لیکن مولوی عبدالحق جولغت نویسی کے نباض تھے، اس لغت کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ وہ ’’غرائب اللغات‘‘ کو اُردو کی پہلی ابتدائی لغت قرار دینے اور اس کی تالیف کی غرض و غایت بیان کرنے کے بعد (جو ہانسوی کے بیان کے مطابق یہ تھی کہ غیر مانوس اور بول چال کے اُردو الفاظ کے معنی اور تشریح لکھ کر فارسی مترادفات لکھ دیے جائیں، تاکہ ان کا سمجھنا طلبہ اور عام لوگوں کے لیے آسان ہو) کہتے ہیں کہ ’’یہ بات قابلِ غور ہے اور فاضل مؤلف کے صحیح ذوق پر دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے صرف وہی الفاظ نہیں لکھے جو لغت کی کتابوں میں ملتے ہیں بلکہ ان الفاظ کو بھی داخل کیا جو زبانوں پر جاری تھے اور بول چال میں آتے تھے۔ اور یہی نہیں بلکہ جو لفظ جس طرح بولا جاتا ہے، اسے اسی طرح لکھا ہے، گو وہ اصل کی رو سے غلط ہی کیوں نہ ہو۔
یہاں ذہن اُردو لغت نویسی کے ایک عام رجحان کی طرف جاتا ہے اور اس پر اعتراض بھی اکثر کیا جاتا ہیی عنی یہ کہ ہمارے لغت نویس عام بول چال کے الفاظ پر ادبی اور شاعرانہ الفاظ کوترجیح دیتے ہیں اور الفاظ کے عام اور رائج اُردو تلفظ کو نظر انداز کرکے اس تلفظ کا اندراج کرتے ہیں جواصل زبان یعنی عربی یا فارسی کی مستند لغات میں دیا ہوا ہوتا ہے۔ حال آنکہ کسی زبان میں دخیل غیر زبانوں کے الفاظ کے اپنے مقامی تلفظ کوترجیح حاصل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی میں دخیل فرانسیسی الفاظ کا تلفظ انگریزی کے استعمال اور رواج کے لحاظ سے طے اور انگریزی لغات میں درج کیا جاتا ہے۔ خواہ فرانسیسی میں اس کا صحیح تلفظ کچھ ہی مانا جاتا ہو۔
(ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی تصنیف ’’لغوی مباحث‘‘ ، ناشر ’’ڈاکٹر تحسین فاروقی، ناظمِ مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور‘‘، طبعِ اول، جون 2015ء کے صفحہ نمبر 15 تا 17 انتخاب)