اس حمام میں سب ننگے ہیں

پاکستان کو ہمیشہ مملکت خداداد کہا جاتا ہے۔ ویسے تو ہر چیز اللہ کی دین ہے، لیکن اس ملک کے لیے یہ کہنا شاید اس وجہ سے ہے کہ مغل دور کے اورنگزیب عالمگیر کے بعد آنے والے بادشاہ امورِ سلطنت چلانے کے فن اور حکمتِ عملی سے عاری تعیشات میں مصروف اور اپنے خوشامدی حاشیہ برداروں میں گرے ہوئے تھے۔ یوں مملکت پر ان کی گرفت دن بدن ڈھیلی ہورہی تھی، تاآنکہ کمپنی بہادر اور پھر حکومتِ برطانیہ نے تسلط جمایا۔ انگریز جنگِ عظیم دو م کے بعد نوآبادیوں پر تسلط قائم رکھنے کے بھی قابل نہیں رہے تھے۔ ساتھ ساتھ لوگ بھی غلامی سے تنگ آگئے تھے۔ ان کے مقامی حریت پسند رہنما جن میں ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگ شامل تھے، نے بھی ان کو تحریک کا ایک آس دیا۔ یوں تحریک چل پڑی۔ ہندوستان آزاد ہوگیا اور دو مملکتیں بھارت اور پاکستان وجود میں آگئیں۔
برصغیر میں اگرچہ متحدہ ہندوستان پر کم و بیش ایک ہزار سال مسلمان حکمران رہے، لیکن بعد میں وہ ’’سٹیٹس کو‘‘ ٹوٹ گیا اور انگریز مسلط ہوگئے۔ ظاہر بات ہے وہاں ہندو اکثریت میں تھے، جب کہ مسلمان اقلیت میں۔ ایسے میں مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ہم مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ مملکت ہو۔علمائے کرام کا ایک مقام تھا، وہ متحدہ ہندوستان کے قائل تھے۔ ان کا اپنا ایک نکتۂ نظر اور اپنا اجتہاد تھا۔ ان پر کسی نے کبھی بدگمانی تو نہیں کی کہ وہ مال کے لیے یا اقتدار کے لیے ایسا کررہے تھے۔ تو ایسے میں جب معاشی حالت بھی ہندؤوں کی برتر تھی،مسلمان تو چوں کہ مدت سے آزادی کے لیے انگریزی تعلیم کا بھی بائیکاٹ کرچکے تھے، بلکہ اس کے خلاف تحریک چلا رہے تھے، جو سول نافرمانی اور عدم تعاون کا ایک انداز تھا۔ ایسے میں ان میں عصری تعلیم یافتہ بھی کوئی اتنے زیادہ نہ تھے۔ یوں ایک ملک حاصل کرنا واقعی خداداد چیز ہے کہ اللہ کا فیصلہ تھا۔ شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ جو خود اکھنڈ ہندوستان کے قائل تھے، وہ چوں کہ صاحبِ مکاشفہ تھے، تو بنگال میں رات کے وقت جب وہ تحریک کے سلسلے میں وہاں تھے، رات کے وقت ساتھیوں سے کہا کہ ملأ اعلیٰ میں پاکستان بننے کا فیصلہ ہوگیا یعنی اللہ نے فیصلہ کردیا۔
قارئین، ساتھ یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ نعرہ بھی یہی تھا کہ ایسی مملکت جہاں مسلمان اسلامی تعلیمات اور قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اس نے مسلمانوں میں ایک ولولہ پیدا کیا تھا۔ سو یہ ملک وجود میں آگیا۔ اب پھر سے تو خطے میں بادشاہت نہ آسکتی تھی کہ ملک ہی ایسا وجود میں آیا تھا کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو، ان خطوں پر مشتمل ہو بلکہ خیبر پختونخوا میں تو ریفرنڈم ہوا اور وہ تقسیم کے حق میں آیا۔ گویا یہ ایک قسم کا جمہوری فیصلہ تھا۔ مالبتہ ہندو اکثریت کی موجودگی میں مسلمان جو اقلیت تھے، ہندوستان میں ان کا مانا گیا۔ یہ اس لیے کہ مذہب اور خصوصاً اسلام، جمہوریت اور اس کے تصور سے زیادہ قوی ہے۔ اس کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا تھا۔سو اب تو اس ملک نے جمہوری انداز سے چلنا تھا اور یہ اس کے بانیان خصوصاً قائداعظم نے واضح کیا تھا کہ ملک جمہوری ہوگا۔
اب یہ علیحدہ بات ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کو چلنے نہ دیا گیا۔ وقتا فوقتاً فوجی جنرلز نے ’’ٹیک اوور‘‘ کیا، جس کے لیے ساری فوج کو مطعون کرنا کوئی صحیح بات نہیں، لیکن فوج میں تو ایک چین آف کمانڈ ہے، اس کو توڑنے کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ فوج تو لڑنے کے لیے ہوتی ہے۔ اس میں کمانڈر کا حکم آئے تو وہاں تو کمانڈ کے نیچے جو آرمی ہے، وہ تو اگر آگ کی بارش بھی ہورہی ہو، یہ عذر تو پیش نہیں کی جاسکتی کہ آگے تو آگ برس رہی ہے۔ پھر جنگ خاک ہوگی؟ وہاں تو پھر Reasoning ہوگی۔ تب تک حملہ آور نے آلیا ہوگا۔ اس لیے تو جنگ میں ’’کمانڈر ان گراؤنڈ‘‘ کو حق ہوتا ہے کہ وہ فوری فیصلہ کرے، وہ ہیڈ کوارٹر سے ہدایات تھوڑی لے گا۔ ہدایات لینا تو حالتِ امن کی بات ہے۔بہر تقدیر جب آرمی چیف قبضہ کرجاتا ہے، تو کمانڈ نیچے تک آجاتا ہے اور ماننا پڑتا ہے اور بس۔اس طرح پولیس بھی ایک فورس ہے، لیکن اس میں کافی حد تک پاکستان میں چین آف کمانڈ کمزور ہے کہ ہر افسر کے پیچھے کوئی طاقت ور سیاسی آدمی کھڑا رہتا ہے، تو وہ کمانڈ کی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا اور تبھی تو حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اب بھی اصلاح ہوسکتی ہے، اگر کوئی چاہے تو۔ پولیس میں بڑے دیانت دار لوگ بھی موجود ہیں، لیکن ان کو کام نہیں کرنے دیا جاتا ہے۔
سو مارشل لاؤں کی وجہ سے سیاست دانوں کا تو یہی میدان ہے کہ انہوں نے مارشل لا کی مخالفت کی۔ جمہوریت کے لیے کی ہوگی، لیکن بہت سارے تو بے روزگار بھی ہوجاتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف تحریک چلی ۔اس زمانے میں، مَیں لا کرچکا تھا، تو تحریک میں تو پیش پیش تھے۔کسی نے سوال کیا یہ تحریک جمہوریت کے لیے ہے؟ مَیں نے کہا، ہاں! تو او ر کیا ہے؟ پھر ازراہِ مِزاح کہا کہ ’’ہاں! مَیں ابھی وکیل بن چکا ہوں، تو میرا تو روزگار کے لیے بھی ہے۔مارشل لا میں سول عدالتیں تھوڑی فعال ہوتی ہیں تو وکالت کہاں کریں گے؟ ہوتی ہے لیکن حالت کوئی قابل ذکر نہیں ہوتی کہ ڈھیر سارے معاملات مارشل لا والی عدالتوں میں چلتی ہیں۔
اب ہم نے دیکھا ہے کہ مارشل لا کے خلاف تحریک، جمہوریت کے لیے ہوتی ہے لیکن جو جمہوری حکومت آتی ہے اور وہ ملک وقوم کا جو حشر کرتی ہے، یا خارجہ امور جو وقتاً فوقتاً کھلواڑ کے لیے تیار ہوجاتی ہے، تو آرمی ان کو تنبیہ کرتی رہتی ہے۔ لیکن ایک وقت آتا ہے کہ اور کوئی راستہ نہیں ہوتا، تو اپوزیشن تو ویسے بھی آستینیں چڑھا کے انتظار میں رہتی ہے اور بیک چینل سے جب ان کو گرین سگنل دی جاتی ہے، تو وہ نکل آتے ہیں اور حکومتوں کے خلاف تحریکات بھی وہی کامیاب رہیں جو گرین سگنل پر شروع ہوتی ہیں۔ یہ بھی اوپن سیکرٹ ہے کہ سیاست دان آرمی کے ذمہ داروں سے رازدارانہ انداز میں ملتے رہتے ہیں اور سارے ملتے ہیں۔ کسی ایک کا بھی استثنا نہیں۔ البتہ کس کا وزن کتنا ہے، یا وہ اس کو کتنا وزن دیتے ہیں؟ یہ چیز مختلف ہے۔ تو آرمی اگر حکومت میں ہو، تو اس سے آزادانہ ملتے ہیں، کبھی ایک نام سے اور کبھی دوسرے نام سے۔ اور اگر حکومت جمہوری ہو، تو حکومت والوں نے تو ملنا ہوتا ہی ہے۔ کیوں کہ دستوری لحاظ سے وہ حکومت کا حصہ اور حکومت کے تابع ہیں۔ اس طرح اپوزیشن والے بھی ملتے ہیں اور اس لیے ملتے ہیں کہ کہیں ہم بیڈ بکس میں نہ آجائیں، ورنہ پھر تو مستقبل میں بھی باری کا امکان ختم ہوجائے گا۔ لیکن یہ ایسے میں رازداری سے ملتے ہیں، کبھی کسی اور کو درمیان میں ڈال دیتے ہیں۔ رازداری تو کبھی راز داری نہیں رہتی۔ وہ رازہی کیا جو افشا نہ ہو۔
ویسے ہمارے ملک میں شاید مارشل لاوؤں کی وجہ سے یا پھر باہر سے فنڈنگ کی اساس پر بہت سارے لوگ تو ایسے بھی ہیں جو آرمی کے خلاف نام لیے بغیر اشاروں کنایوں میں بولتے رہتے ہیں، اورجب ملتے ہیں، تو شاید وہاں سے بتادیاجاتا ہے کہ فلاں فلاں ملے ہیں یا اخبار والے کہیں سے معلوم کرجاتے ہیں۔ ہم نہیں کہتے کہ یہ ملنا کوئی غلط کام ہے۔ اپنا ملک ہے، اپنے ملک کی فوج اور محافظ ہے۔ فوج قربانیاں دیتی ہے۔ تو پھر تو سٹیج پر اشاروں کنایوں میں وہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں یا پھر چپکے سے اور اندھیرے میں ملنا نہیں چاہیے۔ ملنا ہو تو آشکارا ہو، بلکہ میرے خیال میں ملنے سے پہلے پریس ریلیز جاری کریں کہ ہم آرمی کے بڑوں سے ملنے جارہے ہیں اور ایجنڈا یہ ہے۔ ایسے میں دونوں طرف اعتماد بھی بڑھتا جائے گا اور سبکی بھی نہیں ہوگی۔ آرمی کی تو کوئی سبکی نہیں ہوتی۔ ان کے جنرلز کو پارلیمان کی کمیٹی میں بلایا جاتا ہے، وہ آجاتے ہیں کہ دستور کا تقاضا ہے، جس کا کہ انہوں نے حلف اٹھایا ہے لیکن سبکی ان سیاست دانوں کی ہوجاتی ہے۔ پھر انہیں ڈھیر ساری صفائیاں پیش کرنی پڑتی ہیں۔ بیان گھما پھرا کے وضاحتیں دینی پڑتی ہیں۔ ذاتی رعایت لینے کی ملاقاتیں ہمیشہ اخفا میں رکھنے کی کوشش ہوتی ہے۔
اب پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر جگہ فوج کی ایک اہمیت ہے، وہاں فوج سے ملنا ہی پڑتا ہے۔سارے ملے اور سقوطِ ڈھاکہ کے ایک کردار (حمود الرحمان کمیشن کے مطابق) کے بیٹے بھی ایک لیڈر اور اس کی بیٹی کے لیے رعایت لینے گئے، لیکن دھتکارے گئے۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔
قارئین، سیدھی سی بات تھی۔ اس چپکے نے اس کو سنسنی خیز بنادیا۔یہ تو سو چھتر اور سو پیاز کھانے والی بات ہے کہ مجرم کو اختیار دیا گیا، سو چھتر کھاؤ گے کہ سو پیاز۔ اس نے سوچا کہ سو پیاز کھانے میں آسانی ہوگی، لیکن کھاتے ہوئے آنکھوں سے پانی جاری ہوا اور پیٹ میں ابھار آیا۔ تو اس کے بعد کہا نہیں سو چھتر کھانے ہیں۔ بیس کھائے تو بدن میں جلن اور آنکھوں سے پانی جاری ہوا تو کہا نہیں سو پیاز۔ اس طرح پیاز سے چھتر اور چھتر سے پیاز پر آتے جاتے دونوں کھائے۔ ایسے میں اگر آرمی کی طرف سے بھی جواب میں بیان آجاتا ہے، تو لوگ ووٹ تو ان پارٹیوں کو دیتے ہیں لیکن بات آرمی کی مانتے ہیں کہ پارٹی والے ویسے گپ لگارہے ہیں، بس بات وہی تھی جو آئی ایس پی آر نے بتائی۔
لیڈران کرام آرمی والوں سے الیکشن سے پہلے بھی ملتے ہیں، تاکہ ان کو معلوم ہو ایک تو یہ کہ ان کا موڈ کیا اور کیسا ہے؟ دوسرا یہ کہ معلوم کرسکیں ریڈ لائن کیا ہے اور کہاں ہے؟ اس لیے کہ پاکستان ایک دفاعی ریاست ہے کہ اس کے مشرق سے تو دیرینہ مسئلہ چل رہا ہے اور مغرب میں بھی چالیس سال سے زیادہ ہوا حساسیت ہے۔ پھر بین الاقوامی سیاست میں اس کی ایک تزویراتی محل وقوع ہے، تو الیکشن میں تو لیڈران زمین وآسمان کے قلابے بھی ملاتے ہیں۔ آسمان سے تارے توڑ لانے کی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ الٹا لٹکانے، گھسیٹنے اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات بھی کرتے ہیں، تو یہ کہ بعد میں ان کو خمیازہ نہ بھگتنا پڑے کہ سیاست تو وہ مال ومنصب کے لیے کرتے ہیں، تین تیرہ ہونے کے لیے تو نہیں۔ ساتھ ساتھ وہ کچھ اشیرباد بھی لینا چاہتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ نمائندگی تو ملے۔
قارئین، ہم یہ نہیں کہتے کہ آرمی والے دیتے ہیں بلکہ اس سے ایک پیغام جاتا ہے کہ تعلقات ٹھیک ہیں اور یہ لیڈران شاید یا پیٹ کے ہلکے ہوتے ہیں یا پھر پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ فلاں صوبہ ہمیں ملے گا، جیسے کہ یہ وہاں قربانی کے گوشت کا کچھ حصہ وصول کرنے یا اس کی ضمانت لینے گئے ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا کہ شاید انہوں نے تو کچھ ایسا کیا ہی نہیں ہوگا۔ ان کا الیکشن سٹنٹ تھا کہ پانی اتار کی طرف بہتا ہے اور ووٹرز ووٹ اس کو دیتے ہیں جن کا کہ امکان ہو حکومت میں آنے کا کہ پھر کچھ کام آسکیں۔ تو یہ پہلے سے مشہور کردیتے ہیں کہ ہماری حکومت آنی ہے۔ سو اگر ایسا نہیں ہوتا، تو پھر وہ بات کہ دھاندلی ہوئی، فرشتے آئے، غیبی طاقتوں نے ساتھ دیا، آر اُوز الیکشن تھے، سلیکٹ کیا گیا۔ بیسیوں باتیں ہیں اور ہمیشہ سے ہوتی رہی ہیں اور جو باتیں بار بار اور ہر بار کی جاتی ہیں، تو پھر لوگوں کو اس پر یقین نہیں آتا۔ ہوتی ہے کچھ نہ کچھ دھاندلی اور ممکن ہے زیادہ بھی، لیکن یہ کہ مرکزی سطح پر ہوئی یعنی ایک سنٹرل کمانڈ سے، تو پھر مینڈیٹ تقسیم کیسے آیا، پھر تو ایک ہی پارٹی کو دے دیتے، پیوند نہ لگاتے، ٹکڑے نہ بناتے، کیوں کہ پھر کرنے والے کیا کسی سے ڈر رہے تھے؟کہتے ہیں، ہاں! اس خوف کی وجہ سے ایسا نہیں کیا کہ پھر ہنگامہ ہوگا؟
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینا گلاب تھا
جب بھی ہنگامہ ہوا اور کامیاب ہنگامہ ہوا اور کامیاب بھی ہوگیا، تو اس کے پیچھے کرانے والے طاقتور موجود تھے۔یہ ملکی سطح کے بھی ہوتے تھے اور بین الاقوامی سطح کے بھی۔یہ کھیل چلتا رہا ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے آخر سے تو ہم نے بھی کئی ایک تحریکیں دیکھی ہیں اور اس کا حصہ بھی رہے ہیں۔ کبھی صرف نعروں کی حد تک اور کبھی ذرا آگے کوریڈور میں جاکے۔ ہمیں بتایا جاتا کہ اقتدار کے مراکز سے ایسا کرنے کا کہا گیا ہے۔ اب عام لوگ ہمارے جیسے کیسے مطمئن ہوتے کہ ہم کیوں اس کا حصہ بنیں؟ تو بتایا جاتا خزانہ لوٹا گیا، قومی راز دشمنوں کو دیے گئے، ملک کا وجود خطرے میں ہے۔ اب ہمیں تو یقینا ملک عزیز تھا اور ہے، لیکن یہ بھی فکر ہوتی کہ ملک نہ رہا خدانخواستہ تو ہم کیا رہ جائیں گے؟ یہی خوف ہوتا ہے جو بندے کو مار کھانے کے لیے تیار کردیتا ہے کہ جان تو بچ جائے گی، عزت وآبرو بچ جائیں گے۔ لیکن یہ بلی چوہے کا کھیل جو ہمیشہ ہم ایک دوسرے سے کھیل رہے ہیں، یہ کب ختم ہوگا، اور سنجیدگی کب آئے گی؟ کہ ملک وقوم بنے، ترقی ہو اور آئندہ آنے والے جنریشنز کو اسباب کی دنیا میں ایک محفوظ مستقبل دیں۔ممکن ہے کسی نے کچھ کیا ہوگا، لیکن وہ تو دھکا دینا ہوگا کہ کہیں کئی ایک پارٹیاں الیکشن سے لاتعلق ہوکے الیکشن ہی پر سوالات نہ کھڑی کریں، اور ساتھ یہ کہ فلاں اور فلاں پارٹی باہم دگر اتحاد نہ کرلیں، ورنہ جن سے کام لینا ہے ان کا پھر اس صوبے میں بھرپور مینڈیٹ نہیں آئے گا، اور آئے بھی تو اس پر سوالات کھڑے ہوں گے کہ یہ کیسے ہوا؟ جب کہ خطہ کی دو بڑی پارٹیاں تو اتحاد کرچکی تھیں۔ ایسے میں یہ دھکے والی بات یہ ممکن ہے کبھی کبھار دھکے سے بھی کچھ غیر متوقع ہوجاتا ہے اور یہ باتیں کہ ہمیں یقین دھانی کرائی گئی تھی، تو کس نے کرائی تھی؟ لگتا تو یہ ہے کہ انہوں نے کی ہوگی جن پر دن رات اس حوالے سے تنقید ہوتی ہے۔
1977ء کے الیکشن میں جب دھاندلی کا شور مچا، تو تحریک میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ پولنگ کے اندر باہر فوج متعین ہو اور انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں ہوں۔ بعد میں کبھی کہا گیا عدلیہ کے آر اُوز نے انتخابات کا بیڑا غرق کیا۔ کبھی کہا گیا فوج کی موجودگی نے ایسا کیا ۔ اب جو تحریکات چلیں اور کامیاب ہوئیں، متعلقہ حکم ران جسے داخلی یا خارجی مقتدرہ ہٹانا چاہتی تھی، وہ ہٹ گیا تو بعد میں ہمیں پتا چلتا ہے کہ اوہ! یہ تو ہمارے ساتھ ہاتھ ہوگیا، ہمیں تو دھوکا دیا گیا۔
برسبیل تذکرہ ایک بچہ گہری نہر میں گرا۔ لوگوں نے شورمچایا کہ بچہ ڈوب رہا ہے۔ کوئی بہادر بندہ اسے بچائے گا؟ کوئی بھی جان کی قربانی کے لیے تیار نہیں تھا ۔ اتنے میں ہجوم سے ایک شخص نہر میں کودتے دیکھا گیا۔ اس نے بچے کو کنارے پر کھینچا اور خود بھی بچ کے نکل آیا۔ لوگوں نے واہ واہ کے نعرے لگائے اور ساتھ آکے اس کو تھپکیاں بھی دیں کہ عجیب بہادر آدمی ہو، اللہ بھلا کرے کہ بچے کی جان بچ گئی۔ تم نے جمپ کرکے اسے بچایا ۔اس نے کہا کہ بچے کی جان بچ گئی شکر ہے، لیکن مجھے یہ بتائیں کہ مجھے دھکا کس نے دیا تھا؟
پھر بات تو یہ ہے کہ لیڈرانِ کرام کچھ بھی نہیں کرتے اور ان کے اثاثے جمع نہیں ضرب کے انداز سے بڑھتے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اگر ان کے اثاثے بڑھتے ہیں، تو غریبوں کا کم از کم پیٹ کیوں نہیں بھرتا، ان کا بدن کیوں نہیں ڈھانپا جاتا، ان کے سر پر جھونپڑی کیوں نہیں آجاتی، ان کے بچوں کے پاؤں میں جوتے کیوں نہیں ہوتے، بچے سکول میں کیوں نہیں پڑھتے، بالفاظ دیگر غریب ’انسان‘ کیوں نہیں بنتے، یعنی ان کو کیوں انسان نہیں بننے نہیں دیا جاتا؟ وہ گٹر کا پانی کیوں پیتے ہیں؟ ان میں سارے کھانے پینے والوں کا حصہ ہے اور انہیں اس کی سزا بھگتنی ہے۔ یہاں بھی اور آئندہ جہاں میں بھی ۔ تو سب سے درخواست ہے، اب بس کرو یار! بہت ہوگیا، انسان بنو! اور انسانوں کو انسان بننے دو۔ ورنہ ذلیل و رسوا ہوجاؤگے۔ مآخر یہ بھی آپ کے ابنائے جنس اور آدم وحوا کی اولاد ہیں، کچھ تو خدا کا خوف کرو۔
بات یہ ہے کہ یہ ملاقاتیں ہوں، ضرور ہوں۔ ملک کے لیے ہو ں، ملت کے لیے ہوں، قوم کے خیر کے لیے ہوں، جمہوریت اور اس کے استحکام کے لیے ہوں۔ اور میرا نہیں خیال کہ آرمی والوں نے ان کو نیچا دکھانے کے لیے ایسا کیا ہو۔ انہوں نے تو بلایا، اب کسی صحافی کو پتا لگا اور خبر آئی اور سیاست دانوں نے ا س کو اپنے معنی پہنانے کی کوشش کی، تو پھر وضاحت تو کرنی پڑتی ہے۔ بہر تقدیر تشویش کی بات ہے کہ آج تک ہم ایک قوم نہ بن سکے، اللہ ہمیں شعور دے، آمین!
………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔