شترِ بے مہار سوشل میڈیا

شریعتِ اسلامیہ میں جو معروف اور منکر کا تصور ہے، تو ایک عام قاعدہ جو علما نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ معروف میں خیر کا پہلو غالب ہوتا ہے، جب کہ منکر میں شر کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ اس لیے شریعت معروف کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور منکر کے نہ کرنے کا۔انہوں نے قرآنِ کریم کی آیت سے استدلال کیا ہے کہ ’’یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیہما اثم کبیر و منافع للناس واثمہما اکبر من نفعہما‘‘اور یہ لوگ پوچھتے ہیں آپؐ سے شراب اور جوئے کے متعلق، سو کہہ دیجیے (اے محمدؐ) کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے، اور بعض فائدے بھی ہیں لوگوں کے لیے اور ان دونوں کا گناہ (یعنی مضرت) ان دونوں کی منفعت سے زیادہ بڑا ہے ۔
اب شراب میں منفعت تو یہ ہے کہ بندہ مدہوش اور دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوکر کئی ایک رنجوں سے تھوڑے وقت کے لیے چھٹکارا حاصل کرجاتا ہے، یا اس کا کاروبار کرنے والا اس سے نفع کما لیتا ہے۔ اس طر ح جوے میں کبھی چھکا لگا کے کافی رقم آسانی سے ہاتھ آجاتی ہے۔ لیکن ہر دو کی گناہ اوردنیوی اور اخروی مضرت اس نفع سے بہت بڑی ہے۔ سب سے بڑا گناہ تو یہ ہے کہ ا س سے اللہ کی حکم عدولی ہوجاتی ہے، جو آخرت کا بہت بڑا خسارہ ہے۔ اس طرح دنیا میں شراب سے ہوش و حواس کھو جانے کے بعد آدمی کسی کے جان و مال اور عزت وآبرو کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس طرح جوے میں بسااوقات جنگ و جدل اور خون خرابا ہوجاتا ہے۔
فرمایا: ’’انما یریدالشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر۔‘‘ یقینا شیطان چاہتا ہے کہ ڈالے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض شراب اور جوے میں۔
تو یہ شیطان کی شیطانت کے اوزار ہیں، اور شیطانی اوزار شیطان کے کہنے پر استعمال کرنا تو بہت بڑی مضرت ہے۔
قارئین، آج ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں رہ رہے ہیں اور اسے استعمال کرنا بنیادی ضروریات میں شامل ہوچکا ہے۔ اس کے بغیر رہنا اب ناممکن ہے۔ وہ اقوام جو اس باب میں متخلفین ہیں، وہ بہت پیچھے رہ چکی ہیں۔ اگر انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر اس میدان میں قابلِ ذکر کام نہ کیا، تو وہ عصرِ حاضر کے حوالے سے پتھر کے زمانے میں رہنے والے ہوں گے۔ اس ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر،ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے حوالے سے ’’سوشل میڈیا‘‘ ہے۔دنیا میں ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ جاری ہے اور یہ سوشل میڈیا کے میدان میں ہے۔ یہ میڈیا اتنا تیز ہے کہ سیکنڈوں میں بات دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔ چاہے وہ صحیح ہو کہ غلط، اور اس طرح کی اطلاعات سے دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ بسا اوقات لوگ ردِعمل میں وہ کچھ کرجاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! حالاں کہ بعد میں پتا لگ جاتا ہے کہ’’اوہ! یہ اطلاع تو غلط تھی۔‘‘ گویا اس حوالے سے دنیا میں بہت بڑا فساد بھی برپا کیاجاسکتا ہے جس کی بنیاد کوئی نہیں ہوگی۔ لوگوں کو تو جھوٹ پھیلانے میں مزہ آتا ہے: ’’وزین لہم الشیطان سوء اعمالہم۔‘‘ کہ برے اعمال کی شیطان تزئین کرتا رہتا ہے ۔
اور اس میں خاص وعام، دین دار وبے دین، مؤحدین اور ملحدین سب ملوث ہوچکے ہیں کہ ایک تو ہربندہ اپنا چینل بناچکا ہے، تو وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو ’’سرپرائز‘‘ دے۔ اپنی ریٹنگ بڑھائے، شہرت ملے اور دولت بھی۔ یوں ہر ایک ایسی بے تُکی بولتا رہتا ہے کہ اللہ کی پناہ! ان چینلوں پر ہر فن اور ہر میدان کے ماہرین اور نابغے ملتے ہیں۔ حالاں کہ وہ ہمارے جیسے واجبی طور پر شاید کچھ تھوڑا بہت ہی جانتے ہوں۔ شیطان نے ان کو دھوکا دیا ہے کہ ویورز بڑھ گئے ہیں، تو ان کو زعم ہوجاتا ہے کہ لوگوں نے اب انہیں تسلیم کیا ہے، تو ویورز تو پورنو گرافی کے سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ دیکھنایہ ہے کہ آپ کہتے کیا ہیں اور کس چیز کو پھیلاتے ہیں؟ کیا یہ سب کچھ کہہ کر آپ کو خدا اور آخرت کا خوف بھی ہے ؟کیا آپ کسی قسم کے اخلاق واقدار اور قواعد وضوابط پر بھی کچھ یقین رکھتے ہیں؟ یہ سستی شہرت حاصل کرنا اور لوگوں سے واہ واہ سننا ایک ایسا وائرس ہے کہ اس کا کوئی علاج ہے اور نہ ویکسین۔ الا آنکہ اگرکسی کو خدا بچائے۔
سیاست دان خصوصاً ’’تھرڈ ورلڈ‘‘ کے اس وجہ سے اتنے غیر ذمہ دار ہوچکے ہیں کہ ایک دوسرے کی عزت تار تار کرنا اور گالم گلوچ اور خواتین تک کی ہتک کرنا ان کا ایک محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ اب جو لوگ دین کا نام لیتے ہیں، ان میں بھی بہت سارے اس گندے تالاب میں غوطہ زن ہیں، جن کی وجہ سے لوگ دین سے متنفر ہورہے ہیں۔ خصوصاً جدید تعلیم یافتہ طبقہ کہ کیا یہ رہبرانِ شریعت ہیں؟ مناظرات کا بازار انٹرنیٹ پر گرم کیے ہوئے ہیں۔ پیرانِ کلیسا نے اپنے مراقبات کو انٹرنیٹ کی زینت بنادیا ہے اور پھر عامۃ الناس خصوصاً نوجوان طبقہ جن کی اخلاقی تربیت کی طرف تو کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا، بلکہ بڑے خود اس حمام میں ننگے ہوچکے ہیں، تو وہ تربیت کیا کریں گے؟ سستی شہرت کے حوالے سے ذمہ دار فورموں یعنی اسمبلیوں میں ایسے ایسے بل لائے جاتے ہیں کہ دوسرے ہی دن کہتے ہیں کہ ’’معذرت خواہ ہیں غلطی ہوگئی۔‘‘ وہ تو خیر سیاسی ایکٹر ہیں، اس قسم کی ایکٹنگ کرنا ان کی مجبوری ہے، لیکن مذہبی لوگ بھی عجیب ہیں کہ مبارک باد اور یومِ تشکر منانے لگ جاتے ہیں، اور ان حضرات کو وقت کے مجدد بنانے پر آجاتے ہیں کہ یہی دین کے محافظ ہیں۔ انہی دین کے محافظین کی حکومتوں میں شعائر اللہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ختمِ نبوتؐ سے بار بار کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ کوئی سوچتا نہیں، بس ایک سرسری اور سطحی ’’اپروچ‘‘ اپنائے ہوئے ہیں۔
ہم کب سوچیں گے اور فکر کی بات کریں گے اور سوچ کے رد عمل دیں گے؟ ہاں، بعدمیں پچھتاتے ضرور ہیں۔ برسبیل تذکرہ، رسولِ پاکؐ نے ایک بدو سے فرمایا: ’’ایاک والامر الذی یعتذر منہ۔‘‘ ’’اس قول وفعل سے بچے رہو جس کے لیے پھر معذرتیں کرنا پڑیں۔‘‘ یعنی سوچ کے بولو اور سوچ کے کچھ کرو۔
اب سارے اس مرض میں مبتلا بھی ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا تدارک کیا ہے؟ یہ میڈیا مغرب میں بھی ہے لیکن وہاں کافی حد تک قانون کی حکمرانی ہے۔ کوئی بلا ثبوت کسی پر کوئی افترا کرے یا کسی کی ہتک عزت کرے، تو متعلقہ بندہ مُصاب عدالت میں چلا جاتا ہے اور اٹارنی کیس لیتا ہے۔ Contingency پر لے لیتا ہے، یعنی فیس نہیں لیتا کہ چلو Damages کامقدمہ کرتے ہیں۔ دو لاکھ ڈالر کا، ملین ڈالر کا، جب جیت جائیں گے، تو آدھا آدھا یا 60/40 کرجائیں گے۔ لوگ ایسے میں اپنا رہائشی گھر بھی ہار جاتے ہیں۔لہٰذا لوگ محتاط رہتے ہیں ۔
پاکستان میں بھی ہتک عزت کا قانون ہے، لیکن قانون پر عمل کون کرے اور کون کروائے؟ پہلے تو وکیل کی فیس کہاں سے اداکرے؟ اس قانون کو فعال کرنا ہے، تاکہ اس بدتمیزی کا تدارک ہو، وگرنہ اس نے تو لوگوں کی عزتیں خاک میں ملائیں، لوگوں نے اس وجہ سے خودکشیاں کیں۔ اگر قانون کمزور ہے یا Damages کم ہیں، تو اس کو زیادہ کریں۔ معاشرے مفت میں نہیں بنتے۔ بدتمیزیاں، دعاؤں سے اور مذمتوں سے نہیں رکتیں۔ بہر خدا ابھی کے ابھی یہ کام کریں، ورنہ پھر بہت پچھتائیں گے۔ کیا اس طرح کا قانون بنا کر ہم سوشل میڈیا کو سوشل نہیں بناسکتے؟ رہی بات نامعلوم اکاؤنٹ کی۔ تو یہ معلوم کرنا اداروں اور سائبر کرائم والوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ کیوں کہ ٹیکنالوجی تو رہے گی۔ اس سے لاتعلقی تو ممکن نہیں۔ یہ تو ایک سیلاب ہے اس کو چینلائزڈ کرنا ہے، تاکہ اس کے مضر اثرات کنٹرول ہوں، اور اس کے مفید استعمال سے ہم مستفید ہوں۔ ساتھ ساتھ ٹی وی پر جو اخلاق باختہ ڈرامے نشر ہوتے ہیں، جن میں ننگا پن، اوچھا پن اور حتی کہ سسر نے بہو، باپ نے سوتیلی بیٹی،بھائی نے سوتیلی بہن اور دیور نے بھابھی سے تعلق استوار کیے ہیں، واقعہ میں بھی ایسا ہوتا ہوگا، لیکن کیا یہ ایک منظّم تشہیر، دعوت اور ذہن سازی نہیں جس سے نوجوانوں کی شہوات کو برانگیختہ کیا جارہا ہے؟
حکمائے امتِ اسلامیہ نے زنا کے جرم کے اثبات کے لیے چار گواہوں کی گواہی کو لازم قراردیا ہے، اس لیے کہ شاید کہیں فراہم ہوکہ زنا تو ہمیشہ اخفا میں کیا جاتا ہے، اس کو کوئی دیکھے کیسے؟ اور پھر چار لوگ اور وہ بھی عدل ہوں جو اس قسم کے ا عمال سے آنکھیں بند کرتے ہیں۔ پھر بات بھی مشاہدہ کی اور بیانات میں بھی تضاد نہ ہو۔ پھر ساتھ یہ خطرہ کہ کہیں قذف میں ہم چارج نہ ہوں اور 80 کوڑے نہ کھانے پڑیں۔ اب حدِ زنا تو خدا کا حکم ہے، لیکن اتنی سختی اس لیے کہ اس گندے عمل کی تشہیر نہ ہو۔ اس سے تو معاشرہ انسانی معاشرہ رہتا نہیں ۔ تو کیاانٹرٹینمنٹ کے لیے یہ صحیح ہے؟ یا کہتے ہیں کہ معاشرہ کی عکاسی کرتے ہیں، تو کیا یہ عکاسی صحیح ہے؟ جب کہ حکمتِ شریعہ تو فحاشی کو ظاہر نہ ہونا ہے۔ ’’ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین آمنوا لہم عذاب الیم فی الدنیا والا ٓخرۃ واللہ یعلم وانتم لا تعلمون۔‘‘ (النور) یقینا وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مومنوں (کے معاشرہ )میں فحاشی پھیلے، ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
اس طرح تو فحاشی کا پھیلاؤ ہوتا ہے اور پھر پہلے تو ڈراما دکھایا جاتا، ختم ہوجاتا یا زیادہ سے زیادہ کیسٹ پر ملتا۔ اب تو یوٹیوب ہے، اس پر وہ موجود رہتا ہے اور ان لوگوں کے بعد بھی رہے گا یہ ان کا فاحشہ جاریہ ہوگا۔ مرنے کے بعد بھی ان کے نامۂ اعمال میں درج ہوتا جائے گا۔
تو بہر خداسوشل میڈیا تو کیا، پورے میڈیا کو مہذب بنائیں، ورنہ بھگتیں!
………………………………………………