صنعتِ سوال و جواب

Journalist Comrade Amjad Ali Sahaab

یہ ایک ایسی صنعت ہے جس میں شعر کے اندر ہی سوال کیا جاتا ہے اور پھر شعر ہی میں جواب دیا جاتا ہے۔
مولوی نجم الدین ’’بحر الفصاحت‘‘ کے صفحہ نمبر 202 میں صنعتِ مذکور کے حوالے سے رقم طراز ہیں: ’’یہ صنعت کبھی ایک مصرع میں ادا ہوتی ہے، کبھی ایک بیت میں، کبھی دو بیتوں میں۔ ’مطلع السعدین‘ میں لکھا ہے کہ صنعتِ سوال و جواب کو ’مراجعہ‘ بھی کہتے ہیں۔‘‘
کامریڈ امجد علی سحاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
بحر الفصاحت کے صفحہ نمبر 203 پر مولوی نجم الدین نے ایک مصرع میں صنعتِ سوال و جواب کے ادا ہونے کی مثال سید توفیق مہدوی حیدر آبادی کی ایک خوب صورت نظم کی شکل میں دی ہے، ملاحظہ ہو:
اُس نے کہا: جانا مرا؟ مَیں نے کہا: میری اجل
اُس نے کہا: پھر زندگی؟ مَیں نے کہا: آنا ترا
اُس نے کہا: شامِ بلا؟ مَیں نے کہا: گیسو ترے
اُس نے کہا: صبحِ صفا؟ مَیں نے کہا: چہرا ترا
اُس نے کہا: تو کون ہے؟ مَیں نے کہا: نقشِ قدم
اُس نے کہا: منزل تری؟ مَیں نے کہا: کوچا ترا
اُس نے کہا: کیا کام ہے؟ مَیں نے کہا: خدمت تری
اُس نے کہا: کیا نام ہے؟ مَیں نے کہا: بندا ترا
دیگر متعلقہ مضامین: 
صنعتِ تضاد/ طباق  
صنعتِ مُراعاۃ النظیر
صنعتِ نسبت 
صنعتِ خیفا 
صنعتِ ترجمۃ اللفظ
صنعتِ ذوالقافتین/ ذوالقوافی 
دوسری قسم (یعنی ایک بیت میں ادا ہونے کی مثال) ذیل میں دیے جانے والے شعر کی شکل میں دی ہے۔ شعر صفدرؔ کا ہے، ملاحظہ ہو:
اُس نے جب پوچھا کہ تو نے قتل عاشق کو کیا؟
غمزہ بولا: وہ نزاکت تھی، ادا تھی، مَیں نہ تھا
تیسری قسم (یعنی دو بیتوں میں ادا ہونے کی مثال) ذیل میں دیے جانے والے دو اشعار کی شکل میں دی ہے۔ اشعار کاملؔ کے ہیں:
مژگاں سے گر بچے دل، ابرو کرے ہے ٹکڑے
یہ بات مَیں نے کَہ کر جب اُس سے داد چاہی
کہنے لگا کہ ترکش جس وقت ہووے خالی
تلوار پھر نہ کھینچے، تو کیا کرے سپاہی
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔