ریاست ایسے خطے کا نام ہے جس میں انسانوں کی آبادی ہو، آئین اور دستور ہو، اور اس میں حکومت کا ایک نظام ہو۔ جب کہ حکومت اساسی طور پر تین اداروں سے عبارت ہے یعنی
٭ انتظامیہ۔
٭ مقنّنہ۔
٭ عدلیہ
اور یہی سیاست ہے ۔
اب سیاست کے معنی ہیں: ’’اصلاح احوال کی ذمہ داری‘‘ کہ جہاں جہاں نقص ہو، اس کا ازالہ کیا جائے۔اور جو چیز صحیح ہو اس کو نہ صرف یہ کہ صحیح رکھا جائے بلکہ اگر مزید صحت اور اصلاح کی گنجائش ہو، تو اس کے لیے محنت اور تگ ودو کیا جائے۔
اب کوئی خطہ بغیر انسانی آبادی کے ہو، تو اس کو آئین کی ضرورت ہے اور نہ حکومت اور نظام کی۔ آئین اور دستور ایک تو ملک کو متحد رکھتے ہیں۔ اگر اس کی اکائیاں ہوں، تو ان کو باہمدگر متحد رکھتے ہیں، اور فرد کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں، تاکہ ریاست اور اس کی قوت وحکومت من مانی کرکے فرد کے حقوق نہ سلب کرے، کہ وہ فطرت کی ضد ہے اور فطرت تو کمزور نہیں، بلکہ ایک قادر وحکیم خدا کی پیدا کردہ ہے اور اس کے قوانین اس کے وضع کردہ ہیں، تو پلٹ کے تھپڑ ماردیتی ہے ۔
کسی بھی اچھی ریاست اور اچھی حکومت کے لیے سیاست کی روح کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اور سمجھنے کے بعد جب قدرت ملے، تو پورے اخلاص اور تن دہی سے اس کے لیے عملی جدوجہد کرنا بھی ضروری ہے کہ ایک چھوٹا سا گھر اور ادارہ بغیر عملیت کے صحیح طریقے سے نہیں چل سکتا،تو ایک ریاست بغیر اس کے کیسے چلے گی؟
سقراط اور افلاطون، استاد وشاگرد دونوں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایک ریاست کے اچھے طریقے سے چلانے کے لیے سیاسی تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان میں سیاسی شعور ہو۔ سیاسی شعور تعلیم سے، مطالعہ سے، مشاہدہ سے او رتجربہ سے پیدا ہوتا ہے۔ پھر سیاست میں ریاست کے حوالے سے طاقت، ریاستی مفادات اور حقیقت پسندی ایسے امور ہیں کہ ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ ریاستی مفادات کو اولیت نہ دی جائے، تو ریاست کیسے رہے گی؟ اور اگر رہے بھی، تو کچھ وقت کے لیے ہی رہے گی اور وہ بھی کمزور حالت اور کمزور حیثیت میں ۔اس طرح اگر طاقت نہ ہو، تو وہ اپنا دفاع کیسے کرسکے گی؟ وہ تو بری نظر رکھنے والوں کے لیے لقمۂ تر ہوگی کہ جب چاہا ہڑپ کرگیا۔
البتہ ان معاملات کے حوالے سے زیادہ مثالیت پسندی کارگر نہیں ہوتی کہ وہ فلسفہ اور دانش کی حد تک صحیح ہوتی ہے۔ جب کہ ان معاملات اور عملیت کے لیے عملیت پسندی اور حقیقت پسندی کی ضرورت ہوتی ہے۔یعنی ہوا میں گھوڑے دوڑانے کا تو صرف تصور کیا جاسکتا ہے، عملیت نہیں۔
فرانس کے انقلابی جنرل ڈیگال نے تیل کے لیے سعودیہ کا دورہ کیا، تو اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے اس کا برامانا کہ ہمارے دوست ہمیں اعتماد میں لیے بغیر ہمارے دشمن ریاست کا دورہ کررہے ہیں، تو ڈیگال نے ایک ہی جملے میں جواب دیاکہ ’’ریاستیں مفادات پر یقین رکھتی ہیں، دوستوں پر نہیں اور ہمیں تیل کی ضرورت ہے۔‘‘
تبھی تو کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی دوست یا دشمن نہیں ہوتا، بس حریف ہوتے ہیں یا حلیف ہوتے ہیں اور یہ چیز بدلتی رہتی ہے۔ تو ریاست نے دوسروں کے اعتماد پر نہیں رہنا۔ ایسے میں وہ مار کھاتی ہے۔
بین الاقوامی دنیا میں ریاست طاقت کی اساس پر قائم بھی رہتی ہے اور باعزت بھی۔ ریاست میں قوت ہو، تو اس کی قومی سلامتی کے اصولوں اور خارجہ پالیسی میں کوئی ابہام نہیں ہوتا کہ وہ اپنے انداز میں یہ چیزیں بناتی ہے۔اس کے تحفظات نہیں ہوتے۔ کسی بھی کام کے حوالے سے تحفظات تو فرد کے بھی ہوں، تو وہ کام نہیں ہوپاتا،تو اگر ریاست کے ہوں، تو پھر اس کا اللہ ہی حافظ وناصر ہے ۔
یہ تو ہوئی بین الاقوامی سیاست کی بات۔ داخلی طور پر ریاست کے لیے آئین کی پاس داری،قانون کی عمل داری، فرد کے حقوق اور آزاد عدلیہ بنیادی چیزیں ہیں۔ جمہوریت کی کتابوں میں یہی تصورات دیے گئے ہیں۔ اگرچہ ان پر عمل بہت کم ہی ہوتا ہے، اس لیے کہ مفادات کا ٹکراؤ ہوجاتاہے۔ ان اصولوں کو شخصی حکومت اپنائے، تو وہ خوشحال…… اور جمہوری حکومت اپنائے، تو وہ خوشحال۔ اور حکومت جمہوری بھی ہو، لیکن یہ اصول نہ اپنائے، تو پھر تو جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام رہ گیا اور بس۔
آئین، اداروں کو ان کا دائرہ اختیار سکھاتاہے، تو جنہوں نے ووٹ زیادہ لیا اور ان کی حکومت آئی، لیکن انہوں نے مذکورہ بالا امور کا لحاظ نہیں کیا، تو یہ تو آمریت اور اکثریت کا جبر ہوگیا، اور جبر تو بنیادی حقوق کے منافی ہے۔اکثریت کے جبر کا مقابلہ وقتی مفادات بالائے طاق رکھ کر کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ مقابلہ وہ کرسکتے ہیں جو اعلیٰ اقدار کے حامل ہوں اور اپنی دُھن کے پکے ہوں۔ لیکن آج کی دنیا تو پاپولر پالٹکس کی دنیا ہے، اور ان پالٹکس کے لیے
٭ عوام کے جذبات سے کھیلنا ہوتا ہے کہ ان سے وہ بات اور اس انداز سے بات کی جائے جو وہ چاہتے ہیں۔یعنی ووٹ کے لیے لیڈر راہبر نہیں، عوامی جذبات اور خواہشات کا کا فالوور بن جاتا ہے۔ اسے تو معلو م ہوتا ہے کہ اور کیا ہے، ان سے ووٹ بٹورنا ہے اور بس۔ میں کون سا ان کے ہتھے چڑھنے والا ہوں اور ان کو کون سی پکڑائی دوں گا۔ پانچ سال میں بہت سارا پانی پلوں سے گزرا ہوگا۔
٭ چھوٹے چھوٹے مسئلوں کو بڑھا چڑھا کے پیش کرنا بالفاظ دیگر بات کا بتنگڑ بنانا۔
٭ بڑے مسائل کا ذکر ایسے کرنا کہ یہ مسیحا اسے منٹوں نہیں سکینڈوں میں حل کردے گا، جیسا کہ اس کے پاس کوئی گیدڑ سنگھی ہو۔
٭ عوام کو سبز باغات دکھانا یا خوابوں کی دنیا میں لے جانا۔
٭ ان کو تقسیم کرنا کبھی قومیت اور نسل کے نام پر، کبھی زبان کے نام پر، کبھی خطے اور صوبے کے نام پر اور کبھی مذہب کے نام پر۔ بلکہ اگر سارے ایک مذہب کے حامل ہوں، تو ان کے سامنے یہ بیان کرنا کہ مذہب کو بہت خطرہ ہے اور مذہب کے ساتھ لگاؤتو گھٹی میں ہوتا ہے۔یعنی کسی نہ کسی طریقے سے جذبات کیش کرنا یا تعصبات ابھارنا کہ بغیر تعصب پیدا کیے، تو گروپ نہیں بنتا۔ ایسے میں مخالف کے لیے نفرت ابھارنا، اس کی کسی کمزوری کو باربار اور بڑھا چڑھا کرکے پیش کرنا یا اتہام باندھنا۔ اس کے تضادات اگر کچھ ہوں، ان کو اجاگر کرنا ہے۔ یعنی پاپولر پالٹکس جذبات پر ہوتے ہیں، تعصبات پر ہوتے ہیں اور نفرتوں پر ہوتے ہیں۔ اس قسم کی سیاست سے معاشرے پنپتے نہیں بگڑتے ہیں، اور معاشرہ نہ بنے، تو ریاست خاک ترقی کرے گی کہ مذکورہ بالا تین امور سے تو اخلاقیات کا ستیا ناس ہوتا ہے اور انسانی معاشرہ تو اخلاقیات سے بنتا ہے۔ لیکن آج کی سیاست!جنرل ڈیگال نے کہا تھا، اس میں یا ملک کو دھوکا دینا ہوتا ہے، یا قوم کو۔ تو کہا، قوم کو دھوکا دو، لیکن ملک کو قائم رکھو۔
لیکن ہم کہتے ہیں کہ ایسی سیاست ہو، جس میں نہ قوم کو دھوکا دیاجائے، اور نہ ملک کو، یہی انسانیت ہے۔ آج دنیا نے طبعی علوم میں ترقی کی ہے جس نے زندگی کا رُخ تو تبدیل کیا، لیکن اس فکر وعمل کی کجی دور نہیں کی، تو وہ ترقی اس کجی کو اور بھی گہرا کرتی گئی۔ کیوں کہ طبعی علوم کی ترقی تو چوں کہ مادہ سے ہوتی ہے، تو اس سے مادی ترقی آئی، اور غیر ضروری مادی ترقی، اخلاقی اور روحانی پستی کا ذریعہ بنتی ہے، اوربنی ہے کہ ان علوم میں جن جن کو تھوڑی بہت شد بد ہے، وہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتا ہے اور ہم بھی اسے عقل کل سمجھتے ہیں۔
فرد ہو کہ ملک، تو ایسے افراد بھی ہر میدان اور ہر معاملے میں آٹپکتے ہیں اور ایسے ممالک بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور ہر میدان کے ہر معاملے کو اپنے طریقے سے سیدھا کرنا چاہتے ہیں ۔ مثلاً مغربی ممالک طبعی علوم میں آگے ہیں، سو مادی ترقی بھی کرچکے ہیں اور ان کے ہاں اب دو ہی امور اساسی او ر اہم ہیں۔
٭ ایک آزاد جمہوریت۔
٭ دوسری منڈی کی معیشت۔
اب وہ ان دونوں کو ہر جگہ اور ہر ملک پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ معروضی حالات، زمینی حقائق وہاں کے لوگوں کی روایات و اخلاقیات کچھ اور ہوتی ہیں۔ ایسے میں ان کے یہ دو افکار بھی وہاں اپنی اصل حالت میں نافذ نہیں ہوسکتے، اور ان کی اپنی روایات اور اخلاقیات بھی ڈسٹرب ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا وہاں کے لوگ
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
اور ایسے میں وہاں پر ایک اندھیرنگری، اضطراب اور بھگدڑ پیدا ہوجاتی ہے۔ یوں وہ تو تباہی کی طرف بڑھتے رہتے ہیں، لیکن دیگران کے لیے بھی خطرہ بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ افراتفری پھر سرحدات میں بند نہیں رکھی جاسکتی۔ پھر جنہوں نے پیدا کیا ہوتا ہے، اس کو بھی جان کے لالے پڑ تے ہیں کہ دنیا تو اور کسی حوالے سے ہو نہ ہو، اس حوالے سے ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔پھر یہی ممالک جنہوں نے ایسا کیا ہوتا ہے، وہ وہاں کا اضطراب جوان کے لیے بھی خطرہ ہوتا ہے، کو کنٹرول کرنے کے لیے کبھی ایک حربہ اور کبھی دوسرا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن سائیکل ایک بار ٹوٹ جائے پھر اسے جوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔
٭ وہ ایسا کرتے کیوں ہیں؟
اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ ان کو مانیٹر مانا جائے، ان کو لیڈر ماناجائے اور صحیح الفاظ یہ ہوں گے کہ ان کو ’’گینگ لیڈر‘‘ ماناجائے اور ان کے ہر حکم پر لبیک کہا جائے۔
اب یہ کام دوسرے انداز سے بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی روایات، زمینی حقائق، معروضی حالات اور اخلاقیات کو نہ چھیڑا جائے یعنی ان کی اس دائرے میں رہتے ہوئے طرز حکومت اور معیشت میں اعانت کی جائے ۔ لیکن انسان کا حب جاہ اور حب مال کے لیے حرص اللہ کی پناہ!
تو دعا ہے خداوندا! ساری دنیا کے انسانوں کو انسان بناد ے، آمین!
……………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔