ہر سال اکیس ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں امن کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ہر سال یہ دن کسی خاص اور متعین موضوع کے تحت منایا جاتا ہے جس کا مقصد ان سماجی رہنماؤں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے، جنہوں نے امن عالم کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ اس موقع پر سیمینارز، امن واک کا انعقاد اور بین المذاہب ہم آہنگی کا اظہار کرکے اجتماعات منعقد کئے جاتے ہیں۔
ہمارے خیال میں جہاں تک امن کا تعلق ہے، تو امن کسے پسند نہیں اور صلح و آشتی کون نہیں چاہتا۔ روئے زمین پر آباد جان داروں کی فطرت میں یہ خصوصیت ڈالی گئی ہے کہ انہیں امن اور چین سے رہنے دیا جائے۔ انسان چوں کہ اشرف المخلوقات ہے اور تمدنی جانور بھی، لہٰذا نظامِ تمدن کو بر قرار رکھنے کے لیے ہمیشہ سے امن کا خواہاں رہا ہے اور روئے زمین پر جب اور جہاں کسی نے بھی امن کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی، تو امن پسند انسانوں نے امن کو تہس نہس کرنے والا ہاتھ روکا اور امن بحال کرنے کی پوری کوشش کی۔ ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ اگر مذکورہ بالا تاریخ کو امن کا عالمی دن منایا جاتا ہے، تو یہ کس کی زیر سایہ اور زیر انتظام منایا جاتا ہے۔ اگر یہ دنیا کی بڑی طاقتوں کا نعرہ ہے، تو کسی مضحکہ سے کم نہیں۔ اگر بڑی طاقتوں کی کنیز ’’اقوام متحدہ‘‘ کے زیر اہتمام منایا جاتا ہے، تو نرا ڈھکوسلا، بکواس اور منافقت ہے۔ اگر پسماندہ اور کمزور ممالک یہ دن مناتے ہیں، تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ کیوں کہ کمزور تو ویسے ہی امن چاہتا ہے بلکہ دوسرے الفاظ میں کمزور ہمیشہ سے طاقت ور اور زبردست کے جبر سے امن مانگتا رہا ہے۔

ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ اگر مذکورہ بالا تاریخ کو امن کا عالمی دن منایا جاتا ہے، تو یہ کس کی زیر سایہ اور زیر انتظام منایا جاتا ہے۔ اگر یہ دنیا کی بڑی طاقتوں کا نعرہ ہے، تو کسی مضحکہ سے کم نہیں۔ اگر بڑی طاقتوں کی کنیز ’’اقوام متحدہ‘‘ کے زیر اہتمام منایا جاتا ہے، تو نرا ڈھکوسلا، بکواس اور منافقت ہے۔ اگر پسماندہ اور کمزور ممالک یہ دن مناتے ہیں، تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

سترہویں صدی عیسوی میں جب مغرب (یورپ) میں صنعتی انقلاب آیا، مغربی اقوام نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی اور معاشی لحاظ سے بھی مضبوط ہوگئیں، تو انہوں نے جدید ٹیکنالوجی اور علوم کی بدولت اور شاطرانہ چالوں سے پسماندہ اور کمزور اقوام کو فتح کرنے اور ان کے وسائل پر قبضہ جمانے کا خواب دیکھنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں دنیا کا امن برباد ہوتا رہا۔ چناں چہ پہلی جنگ عظیم میں مغربی اقوام نے انسانوں پر ایسی جنگ مسلط کی، جس کے نتیجے میں لاکھوں انسان مارے گئے۔ کروڑوں انسان بے گھر اور بے شمار اپاہج ہوئے اور کروڑوں پاؤنڈز کی املاک کو نقصان پہنچا۔ اس جنگ میں متحدہ عالم اسلام کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا اور خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرکے اس کے حصے بخرے کردیئے گئے۔ انسان کا یہ زخم ابھی مندمل نہیں ہوا تھا کہ پچیس سال بعد یعنی 1939ء کو دوسری جنگ عظیم کے فتنے نے سر اٹھالیا جس کے نتیجے میں بے شمار انسان آگ و آہن اور ایٹم بم کے شعلوں کی نذر ہوگئے اور کروڑوں انسان اپاہج اور بے گھر ہوئے اور اسی طرح دنیا کا امن بڑی طاقتوں کے ہاتھوں برباد ہوتا رہا۔
ان لڑائیوں کے بعد دنیا کو امن کا پیغام دینے والوں نے بحالئی امن کی خاطر موجودہ اقوام متحدہ (یو این او) کی بنیاد رکھی، لیکن بہت جلد امن کے ان نام نہاد ٹھیکیداروں (سپر پاورز) نے اس ادارے یعنی یو این او کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھادیا اور دنیا کے مختلف مقامات پر بدامنی کی ایسی آگ لگائی کہ خدا کی پناہ۔
ہم حیران ہیں کہ دنیا میں امن کہاں ہے، کس کے پاس ہے اور کون اس کا ضامن ہے؟ یہاں تو بس جنگل کا راج اور قانون ہے اور ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والا اُصول رائج ہے۔ کیا فلسطینیوں کی آزادی سلب کرکے امن کا نعرہ لگانے والی بڑی طاقتیں امن کا مذاق نہیں اُڑا رہی ہیں؟ کشمیر میں عرصہ پینسٹھ سال سے نہتے کشمیریوں کے خون سے ہولی کھلی جارہی ہے اور بڑی طاقتیں امن کا نعرہ لگاتی شرماتی نہیں۔ ویت نام پر بائیس سال تک جنگ مسلط کرکے لاکھوں لوگوں کو موت کے منھ میں دھکیل دیا گیا جبکہ عراق، شام، افغانستان، لیبیا اور مصر کی حالت دنیا کے سامنے ہے۔ جب امن کے نعرے میں بین المذاہبی ہم آہنگی کا نعرہ بھی شامل ہو، تو حیرانی کی بات ہے کہ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ کیوں کہ تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ یہود و ہنود اور نصاریٰ ہمیشہ سے ملتِ واحدہ بن کر مسلمانانِ عالم کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے رہے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ اہل اسلام کے ساتھ ان کی کس طرح مذہبی ہم آہنگی ہوسکتی ہے؟ یہ تو چھپی منافقت معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ مسلمان تمام انبیا اور دوسرے مذاہب کے بانیوں اور پیشواؤں کو احترام اور عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ اس کے برعکس یہود و ہنود اور نصاریٰ اسلام، پیغمبرِ اسلام اور امت محمد یہؐ کے ساتھ ہمیشہ سے بغض و حسد کرتے رہے ہیں۔
آج مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت اسلامی ممالک کے پیچھے لگا ہوا ہے اور ایک ایک اسلامی ملک کے خلاف سازشوں کے جال بن رہا ہے اور اس بہانے اسلامی ممالک کو مغلوب کرکے ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے منصوبے بنارہا ہے۔ کیا یہی امن ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر دوسروں پر جنگ مسلط کرو، امن کا جنازہ نکالو، بے گناہوں کو تہہ تیغ کرو، پُرامن ممالک میں شورش پیدا کرو، دوسروں کے وسائل پر قبضہ کرو اور ہوس ملک گیری کے لیے پُرامن انسانوں کے گھر اُجاڑو؟
کیا ان کی امن امن والی پکار ’’بغل میں چھری منھ میں رام رام‘‘ والی بات نہیں؟
مرزا غالب نے ایسے مواقع پر کیا خوب کہا ہے کہ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا