الیکشن کی گہماگہمی کے ہنگام امریکہ کی انتخابی مہم میں برسرِپیکار دونوں جماعتیں داخلی مسائل پر گفتگو کے بجائے چین کے خلاف شمشیر لے کر میدان میں اتری ہیں۔ ووٹروں کو لبھانے کے لیے جس طرح دہلی اورممبئی کے گلی گوچے میں زہرا ُگلا گیا، اب وہی منظر ورجینیا اور کیلی فورنیا کی سڑکوں پر دہرایا جا رہا ہے۔ جیسے اس ڈرامے کا سکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار کوئی ایک ہی ہو۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ چین اپنے وسائل انہیں شکست دلانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ان کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ چین کی کوشش ہے کہ وہ ایسے حالات پیداکرے جو ٹرمپ کو الیکشن جیتنے میں مدد دیں۔
ایک جانب روزانہ سیکڑوں امریکی شہری کورونا وائرس کے ہاتھوں جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ وہاں دوسری جانب ٹرمپ کی الیکشن مہم کا مرکزی موضوع چین کو سبق سکھانا ہے۔ شہریوں کو بچانا نہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے امریکی معیشت اور سماج کی چولیں ہلا دی ہیں۔ صدر ٹرمپ ایک ضدی شخصیت ہیں، جو من مانی کرتے ہیں اور مشاورت پر یقین نہیں رکھتے۔ طبی ماہرین اور خفیہ اداروں کی رائے کے برعکس انہوں نے سخت لاک ڈاؤن یا دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے گریز کیا۔ چناں چہ کورونا پھیلا اور خوب پھیلا۔ اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور خفت مٹانے کے لیے انہیں ’’قربانی کا بکرا‘‘ چاہیے۔ چین سے بڑھ کر اور کون ان کی مدد کرسکتا ہے؟
امریکہ کے الیکشن میں کس نے کس ملک کی ’’بلی چڑھائی‘‘کی روایت اب پختہ ہوچکی ہے۔ عراق، افغانستان، لیبیا اور شام کے خلاف الیکشن مہم میں ہی فضا سازگار بنائی گئی تھی۔ رفتہ رفتہ ان ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی۔
ایران بھی امریکہ کے نشانے پر ہے، لیکن تجارتی جنگ اور کورونا نے امریکی سیاست دانوں کو موقع دیا کہ وہ ایران سے پہلے چین کا حساب برابر کریں۔
جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکیوں کا خیال تھا کہ چین ان کا حلیف ہوگا اور وہ برطانیہ اور فرانس کو چین کے ذریعے دباؤ میں رکھے گا۔ یکم اکتوبر 1949ء کے کمیونسٹ انقلاب نے امریکیوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ 70ء کی دہائی تک انہوں نے چین کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ پاکستان کی مدد اور سفارتی کوششوں سے جمود ضرور ٹوٹا، لیکن شیشے میں بال پڑگیا تھا۔ مغربی دنیا میں چین سے پایا جانے والا خوف محض عالمی وسائل پر بالادستی قائم رکھنے کی خواہش کا مظہر نہیں، بلکہ امریکہ کی لیڈرشپ میں جو سیاسی اور عالمی نظامِ تشکیل گذشتہ 75 برسوں سے قائم ہے، اس کو لاحق خطرہ ہے۔
کورونا چین کی لیبارٹر ی میں بنا، یا یہ قدرتی وبا ہے؟ اس حقیقت پر رہتی دنیا تک پردہ پڑا رہے گا۔ غالب گمان ہے کہ کورونا کے بعد کی دنیا میں امریکہ اور چین کے درمیان جاری کشمکش میں شدت آئے۔ غیر معمولی طور پرمنظم عالمی مہم کا چین کوآج کل سامنا ہے، جس کی قیادت اس مرتبہ امریکی سیاست دان متفقہ طور پر کر رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ جاری ہونے والے ’’پیو سروے‘‘ میں بتایا گیا کہ امریکہ میں چین کے بارے میں تیزی سے منفی خیالات جڑپکڑ رہے ہیں۔ ’’پیو‘‘ نے پہلی بار 2005ء میں چین کے ساتھ امریکی رویوں کو جاننے کے لیے سروے کیا تھا۔ اس وقت 43 فیصد شہریوں نے چین کو امریکہ کے لیے فائدہ مندقراردیا تھا، اور 35 فیصدنے ناپسند کیا تھا۔ اس کے برعکس اس برس صورتِ حال غیرمعمولی طور پر بدل گئی ہے۔ 66 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ چین کا طرزِ عمل نامناسب ہے۔ محض 26 فیصد سازگار رائے رکھتے ہیں۔
امریکی جریدہ ’’فارن پالیسی‘‘ لکھتا ہے کہ چین اور اس کے صدر شی جن پنگ بارے موجودہ امریکی رائے کورونا وائرس کے زیرِ اثر بھی ہے، لیکن اس مسئلہ کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
مثال کے طور پر سروے میں 5 میں سے 4امریکیوں کا خیال ہے کہ تجارتی خسارہ، امریکی ملازمتوں کا نقصان، چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت، چین کا ماحولیاتی اثر، سائبرٹیکس اور انسانی حقوق سے متعلق چین کی پالیسیوں کی وجہ سے چین امریکہ کے لیے بہت بڑا دردِ سر ہے۔
رائے عامہ کے چین بارے منفی رجحان کے پیشِ نظر امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں نے چین کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کرلیا ہے، بلکہ مقابلہ جاری ہے کہ بڑاچین مخالف کون ہے؟
امریکہ میں ابھرنے والے چین مخالف جذبات اور ان کی بھرپور تشہیر ہمیں دیا دلاتی ہے کہ ایسا ہی ایک منظرنامہ عراق پر حملے سے پہلے تشکیل دیا گیا تھا۔8 ستمبر 2002ء کو نیویارک ٹائمز نے اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ بولا۔ صفحۂ اول پر چھپنے والے مضمون میں دعویٰ کیا گیا کہ صدام حسین نے جوہری ہتھیاروں کے اہم اجزا حاصل کرکے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاربنانے کی مہم تیز کردی ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر کی حکومت نے اس مضمون کی تصدیق کے نام پر خفیہ اداروں کا مرتب کردہ ایک ’’ڈوزیئر‘‘ بھی میڈیا میں پیش کیا۔ آسٹریلیا کے جان ہاورڈ نے بھی ایسی ہی جھوٹی کہانیاں پھیلائیں۔ میڈیا اور مغربی سیاست دانوں نے غلط اطلاعات پھیلا کر عالمی رائے عامہ ہموار کی۔ چھے ماہ بعد مشرقِ وسطی کے درویوار اس تباہ کن جنگ سے لرز اٹھے۔ عرب پناہ گزینوں کا ایک سیلاب دنیا بھر میں امنڈ آیا۔ عرا ق کی جنگی کوکھ سے داعش اُبھری اور مسلم دنیا کے جسد پر غیر معمولی گھاؤ لگائے۔
معلو م نہیں کہ عالمی ادارے چین بارے جو معلومات فراہم کررہے ہیں، ان میں کس قدر صداقت ہے۔ پہلے ہی وہ حقائق مسخ کرکے عالمی امن کو تباہ کرنے کے مرتکب ہوچکے ہیں۔ ان پر اعتبار کرنا محال ہے۔ سنسی پھیلا کر وہ لوگوں کو خوف زدہ کرتے ہیں۔ سیاست دان اسی خوف کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کھیل میں بے گناہ موت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان ائیر فورس کے تھنک ٹینک کے زیرِ اہتمام ایک کانفرنس میں پاکستان میں تعینات سابق سفیر ’’ڈیوڈ کیمرون‘‘ نے پاکستانیوں کو مشورہ دیاکہ وہ چین کوہر ایشوپر غیر مشروط حمایت فراہم کرنے یا تھپکی دینے کے بجائے صائب مشورہ دیا کریں۔ کیمرون کا خیال ہے کہ چین، پاکستانیوں کی بات ہمدردی اور غیرمعمولی توجہ سے سنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی ریاست اور دانشور، آزاد میڈیا، جمہوریت، شہری اور مذہبی آزادیوں کے حوالے سے اپنے تجربات چین کے ساتھ شیئر کریں، تاکہ وہ ان تجربات سے استفادہ کرکے اپنا بند معاشرہ کھولنے کے بارے میں سوچے۔ چین کو عالمی دباؤ سے نکالنے کا یہی ایک راستہ ہے۔اس وقت کا انتظار نہ کیا جائے جب دنیا چین کے خلاف ایکا کرلے۔ تنہا پاکستان اس وقت چین کی کوئی مدد نہ کرسکے گا۔
قارئین، چین بہت بڑی طاقت ہے اور آسانی سے اصلاحات قبول کرنے والا نہیں، لیکن مجھے کیمرون کی بات میں وزن نظر آتا ہے۔ چین کو عالمی نظام کے اندر اپنا کردار ادا کرنے کے بارے میں زیادہ تخلیقی ذہن اور کھلے دل سے حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ دنیا کو اپنے خلاف متحد ہونے سے روکنے کی کوشش کرنا ہوگی۔
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔