ماحولیاتی آلودگی دنیا کا سب سے گھمبیر مسئلہ ہے۔ عالمی برداری کی جانب سے دنیا کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ماحولیات کے تحفظ پر سب سے زیادہ ضرور دیا جاتا رہا ہے۔ دنیا نے ترقی کی منازل میں قدرتی تدابیر کو شدید نقصان پہنچایا اور جدیدیت کی جانب گامزن ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر مملکتوں نے ماحول دوست پالیسیاں اختیار کرنے میں سست روئی کا مظاہرہ کیا، جس کے باعث اب دنیا کو ماحولیاتی مسائل کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ کرونا وبا نے جہاں عالمی برداری کے لیے مہلک خبروں و خدشات کا طوفا ن برپا کیا، تو ’’شر کے ساتھ خیر‘‘ کے فلسفے نے بھی ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنانے میں حیرت انگیز کردار ادا کیا۔ دنیا کے سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی کے شکار شہروں میں کرونا وَبا نے بہت کچھ بدل دیا، جس کی واحد وجہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کارخانوں کی بندش، گاڑیوں اور ایندھن کے کم استعمال اور فضائی سفر میں غیر معمولی کمی قرار دی گئی۔ یوں ماحولیات سے انسانی زندگی کو پہنچنے والے نقصانات میں وقتی فائدہ کے کئی مثبت اطلاعات منظرِ عام پر آئیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے سبب انسانی زندگی کو کئی مہلک بیماریوں کا سامنا بھی ہے۔ ماحولیات پر تحقیق کرنے والے کئی اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انسانوں کے ہارٹ اٹیک اور دمے کے مرض میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
ناروے کے ایک ماحولیات سے متعلق تحقیقی ادارے ’’سینٹر فور انٹرنیشنل کلائمیٹ ریسرچ‘‘ اور کچھ دیگر اداروں کی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی کمی کے باعث اچانک دل کے دورے سمیت دمے کے مرض سے اموات سے نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تحقیق کے دوران 27 ممالک کے 10 ہزار سے زائد ایئر مانیٹرز کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے، اور اس کا موازنہ گذشتہ تین سال کی ایئر کوالٹی کے اعداد و شمار سے کیا گیا ہے۔تحقیق کاروں نے ہوا میں پائے جانے والے تین آلودہ عناصر ’’نائٹروجن‘‘، ’’ڈائی آکسائڈ‘‘، ’’اوزون‘‘ اور ’’پی ایم 25‘‘ پر تحقیق کی ہے، جو انتہائی چھوٹے ذرات ہوتے ہیں اور پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کے باعث ہر سال تقریباً 40 لاکھ بچے دمے کے مریض بن جاتے ہیں۔ اسی طرح اوزون اور پی ایم25 کے ہوا میں موجود ذرات سالانہ 40 سے 90 لاکھ آبادی قبل از وقت موت کے منھ میں چلی جاتی ہے۔ ماحولیات کا عدم توازن انسانوں میں ہارٹ اٹیک، دل کے دیگر امراض، پھیپڑوں اور سانس کی کئی بیماریوں کا موجب بنتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ہوا میں پائے جانے والے ان ذرات کی کمی سے محتاط اندازے کے مطابق موات کم ہوئی ہیں، جب کہ بچوں میں دمے کے کیسز کم سامنے آئے ہیں۔محققین کا اندازہ ہے کہ صرف بھارت میں ہی صاف آب و ہوا سے سیکڑوں زندگیاں محفوظ ہوئی ہیں، جب کہ چین میں بھی ماحولیاتی آلودگی کی کمی کے باعث کم اموات ہوئی ہیں۔تاہم اس اَمر کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ یہ سب تادیر قائم رہنے والا نہیں۔ کیوں کہ لاک ڈاؤ ن طویل عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گا اور رفتہ رفتہ دنیا میں ماحولیات کے حوالے سے بے احتیاطی حالات کو پہلے جیسا تبدیل کرسکتی ہے۔ اس لیے تاحال ماحولیات پر جو تحقیق کی جا رہی ہے، وہ زیادہ زود اثر و تادیر قائم نہیں رہ پائے گی اور کرونا وبا کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا کو ایک بار پھر ماحولیات میں تبدیلی کے لیے اُن منصوبوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا، جو پیرس کانفرنس میں طے کیے جاچکے ہیں۔
کرونا وبا کے سبب لاک ڈاؤن سے قبل عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بیماریوں میں اضافہ اور موسم میں تبدیلی جیسے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی کمی کے اقدامات پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے، تو سالانہ10 لاکھ جانوں کو بچانا ممکن ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ گرمی میں اضافے کا سبب بننے والی کاربن گیسوں کا اخراج اگر کم ہوجائے، تو سالانہ لاکھوں انسانوں کو موت کے منھ میں جانے سے روکا جاسکتا ہے۔ پانی کی آلودگی بھی انسانوں کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جس کے سبب پھیپھڑے، گردے اور دل کی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہاں افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ عالمی درجۂ حرارت کی تیزی سے بڑھنے کے باوجود عالمی سطح پر صرف ایک فیصد فنڈ خرچ کیا جاتا ہے۔یہ صورتحال دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لیے ناکافی ثابت ہوا ہے ۔ فضائی آلودگی کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز کے گذشتہ سال ریکارڈ اخراج کے باعث موجودہ صدی میں عالمی درجۂ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے صحت پر پڑنے والے اثرات 21ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہیں، عالمی ادارہ صحت کے ماہر کیمبیل لینڈرم کا کہنا ہے کہ کاربن کے اخراج سے ہمیں غذا اور پانی کی کمی جب کہ ہوا میں آلودگی جیسے مسائل کا سامنا رہے گا۔
پاکستا ن ماحولیاتی آلودگی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں ملک ہے۔ گو کہ اس وقت کرونا وَبا کے باعث دنیا کے کئی شہروں کی طرح کراچی، لاہور جیسے کئی چھوٹے بڑے شہروں میں ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن یہ مستقل حل بہرحال نہیں۔ ماحولیات میں عدم توازن کے باعث گرمی کی شدت میں اضافہ اور سرد موسم کا بے وقت تک رہنا نیز بے وقت بارشوں کی وجہ سے پاکستان کو زرعی طور پر بھی نقصان کا سامنا ہے۔ صنعت کاری میں ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کی تدابیر میں غفلت برتنے اور بے احتیاطی کے سبب ماحول میں بدترین خرابی واقع ہوئی ہے۔ جنگلات کی کمی اور موجودہ جنگلات کو بھی بے رحم طریقے سے کاٹنے کی روش سے زرخیز زمین برباد ی کی جانب گامزن ہے۔ صنعتی فضلات میں اضافہ اور مناسب طریقے سے ضائع نہ کیے جانے کے باعث یہ زہریلی کثافت پینے کے صاف پانی اور فضا کو مسلسل اور تیزی کے ساتھ آلودگی کا شکار کررہی ہے۔صنعتی فیکٹریوں میں حفظانِ صحت کے برخلاف اقدامات سے سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی طرح صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث زیرِ زمین پانی میں پریشان کن حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ بے تحاشا استعمال میں آنے والی کیمیائی اشیا، دوائیں، کیڑے مار ادویہ، پلاسٹک پیکنگ اور آرائشی سامان وغیرہ سے بھی آلودگی پیدا ہونے سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جو کینسر جیسے موذی مرض کا سبب بھی بنتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کی اقسام میں زمینی آلودگی، آبی آلودگی، ہوائی آلودگی، شعاعی آلودگی اور شور کی آلودگی ہیں۔ آلودگی خواہ کسی بھی قسم کی ہو، اس سے انسانی صحت اور قدرتی ماحول بہت بری طرح متاثر ہوتاہے۔ مثال کے طور پر شور کی آلودگی سے طبیعتوں میں چڑچڑاپن، سر درد، تھکاوٹ، ڈپریشن اور بہرے پن کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔
کرونا وَبا میں لاک ڈاؤن نے اس حقیقت کو پوری طرح منکشف کردیا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کو خطرات لاحق ہیں اور بے احتیاطی کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی سے زندگی کو مسائل و امراض کا سامنا ہے۔ اس حقیقت کو کرونا وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہوئے شہروں میں با آسانی دیکھا جاسکتا ہے ۔ بلا شبہ کرونا وَبا سے پوری دنیا کا نقشہ تبدیل ہوا، تاہم اس موقع پر آگاہی بھی سامنے آئی کہ زہریلے دھوئیں اور آلودگی کے تمام اسباب کو ختم کرنے یا کم کرنے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ شجر کاری مہم آلودگی کے مضر اثرات کو کم کرنے میں سب سے نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ حکومت کی جانب سے اگر اس موقع پر شجر کاری مہم کو مربوط انداز میں اپنایا جائے، تو ایک جانب بے روزگاری کا مسئلہ کم ہوسکتا ہے، تو دوسری جانب شجر کاری مہم سے کرونا وبا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے میں اہم مدد مل سکتی ہے۔ ٹریٹمنٹ پلانٹس، ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی سموگ کو فعال کرنا اور ماحولیاتی لیبارٹریز کو مؤثر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے فاضل مادوں کے اخراج کو محفوظ طریقے سے تلف کرانے پر سخت اقدامات ماحولیاتی آلودگی کی کمی کے لیے ناگزیر ہیں۔ صوبائی حکومتیں اگر ری سائیکل ہونے والی اشیا کے استعمال کو ترجیح دیں اور موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرائیں، تو کچرا بننے کے امکانات کم سے کم ہوسکتے ہیں۔ کرونا وَبا نے انسانوں کی کئی خامیوں کو بُری طرح آشکارہ کیا ہے۔ اس وبا سے سبق ملا ہے کہ عالمی برداری کی ترجیحات فلاحِ انسانی ہونا چاہیے۔ جنگ و جدل اور صنعتوں کے ذریعے ترقی کی دوڑ میں ماحولیات کو نقصان پہنچانے سے کروڑوں انسان اپنے حصہ سے کم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک، ترقی پذیر ممالک کو اپنے فروعی ایجنڈا کے تحت کالونیاں بنانے کے بجائے ماحولیات کی تباہ کاریوں کے سدباب کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔