باہر بارش ایسی کہ ’’سات آسمان وا ہُوئی دی‘‘ یعنی سات آسمان اتر گئے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ ’’بھوو سی کن اُولأد تی‘‘ یعنی پانی کی بالٹیاں اُنڈیلی جارہی ہیں۔ اندر ایک سناٹا ہے ، خوف ہے۔ ماضی کی یاد ہیں اور ہمارے زخم ہیں۔ ماضی کے زخم تب زیادہ دُکھتے ہیں جب حال میں کوئی زخم دے۔ انسان کی خوش قسمتی کہ ماضی کو بھولتا جاتا ہے، لیکن کیا کریں ماضی خود کو دہراتا ہے اور ان ہی زخموں پر بہار آتی ہے جو وقت کے جاڑے تلے دب گئے ہوتے ہیں۔
سوات میں طالبان شورش کی آوازیں 2005ء سے آنے لگیں۔ کچھ لوگوں نے خطرے کی گھنٹی بجادی، مگر روزگار اور معیشت کے تیز شور میں کسی نے نہ سنا۔ 2006ء میں جب شدت آگئی، تو چند اور لوگوں نے سیٹی بجانے کی کوشش کی۔ لوگوں نے کان نہ دھرے۔ حکومتِ وقت معیشت، معیشت کرتی اپنے اقتدار کو طول دینے کی فکر میں لگی رہی۔ 2007ء میں جب سڑک کناروں، درختوں اور کھمبوں پر سر کٹی لاشیں لٹکنا شروع ہوئیں، تو چند لوگوں نے نشان دہی کرنی شروع کی، مگر پھر بھی کسی نے نہ سنا۔ حکومتِ وقت اور اپوزیشن وردی میں پھنس گئے۔ بادشاہِ وقت کو اپنی وردی اپنی کھال سے زیادہ عزیز تھی۔ ایسے میں کس کی طاقت تھی کہ للکارتا۔ عدلیہ میں بھونچال آیا ہوا تھا اور ایک تحریک چلائی جارہی تھی۔ سوات کو بھلا کون پوچھ سکتا تھا!اس دوران اور جب 2008ء کو سوات میں آئے روز سڑکوں، نالوں، بجلی کے کھمبوں اور درختوں پر سر کٹی لاشوں کی تعداد زیادہ ہونے لگی اور صبح لوگ ایسے نظارے دیکھنے لگے، تو حکومت وقت کے ایما پر ہمارے محافظ کہیں کہیں دو تین گولے داغ کر اس عمل کو اخلاقیات کے دائرے میں سے کسی لفظ سے منسوب کرکے آپریشن کا نام دیتے رہتے۔ کبھی ’’راہِ راست‘‘ نام ہوتا، تو کبھی ’’راہِ نجات‘‘۔
اس کشمکش میں سوات جلدی جلدی سرکتا گیا اور سوات کے بڑے شہر کے چوراہے ’’خونی چوک‘‘ کے نام سے منسوب ہونے لگے۔ لڑکیوں کے سکولوں پر پابندیاں لگ گئیں اور سوات میں شریعت کا نفاذ روڈ پر ہونے لگا۔ نجی عدالتیں لگنی شروع ہوئیں اور سڑک پر ٹریفک دائیں جانب ہوئی۔ حکومتِ وقت باہر کو اپیل کرتی رہی کہ معیشت خراب ہے۔ آخرِکار ایک معاہدہ ہوا اور پورے ملاکنڈ ڈویژن کو ان کے ہاتھوں میں دیا۔ ان کا امیرالمومنین ماننے والا نہیں تھا۔ وہ فوراً آئین، عدلیہ اور پارلیمان کو غیر اسلامی قرار دے کر معاہدے سے مکر گیا۔ تب پارلیمان میں ایک اپوزیشن لیڈر نے اعلان کیا کہ ’’طالبان بس مارگلہ پہاڑیوں تک پہنچ گئے۔‘‘ طالبان کے خلاف آپریشن کا اعلان ہوا۔15 لاکھ لوگوں کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا اور وہ گرمیاں سم کے میدانوں میں خیموں میں گزارنی پڑیں۔ یوں ایک عمل جسے ایک ایس ایچ اُو 2004ء میں باآسانی کرسکتا تھا، اسے ایسی چھوٹ دی گئی کہ آخرِکار اس کے خلاف کئی بریگیڈ فوج، ٹینک، جہاز اور مارٹر گولے استعمال کرنا پڑے۔
فروری سے ملک میں کورونا پھیل رہا ہے۔ تفتان سے چند ہزار لوگوں کو سنبھالا نہ گیا۔ وہاں نہ کوئی میڈیکل ٹیم بھیجی گئی اور نہ پاک ایران بارڈر پر کوئی کورنٹائن ہی بنایا گیا۔ ایک حکومت نے بند کرنے کی کوشش کی، تو بڑی حکومت نے چپکے سے اندر آنے کی جازت دی۔ زائرین کا ملک میں آنا تھا کہ کورونا وبا پھیل گئی۔ لاہور میں تبلیغی اجتماع کے منتظمین کے ساتھ بروقت مکالمہ نہیں کیا گیا۔ مولوی طارق جمیل صاحب کو بادشاہ صاحب نے بلایا۔ ہم یہ سمجھے کہ ان کے زیرِاثر تبلیغی جماعت کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی، مگر مولوی صاحب کو تو اپنا ہجو اور ثنا پڑھنے بلوایا گیا تھا۔
بیرونِ ملک سے جہازوں پر آنے والوں کی نگرانی آسانی سے کی جاسکتی تھی، لیکن نہیں کی گئی۔ یوں اس طرف سے بھی کورونا ملک پنجے گاڑنے لگا۔ کورونا پھیلتا گیا اور حکومت وقت صرف ٹی وی پر آکر تعداد بتاتی رہی۔ کورونا کے ٹیسٹ تیزی سے کیے گئے اور نہ احتیاطی تدابیر ہی جلدی کیے گئے ۔
بادشاہِ وقت نے پوری قومی قیادت کو جوتی کی نوک پر رکھا۔ کسی کی نہ سنی اورجہاں جس حکومت نے کوشش کی، اس کی راہ میں رُکاوٹیں ڈالی گئیں۔ عسکری قیادت نے خود کو دور رکھنے کی کوشش کی۔ کسی فیصلے میں آگے نہیں آئی۔ پورے ملک میں ابہام نے جنم لیا۔ ’’بندش ہے‘‘، ’’بندش نہیں ہے‘‘، کی گردان ہوتی رہی۔ بادشاہِ وقت ایک بار پھر بیرونی طاقتوں کو اپلیں کرنے لگے ۔ بیمار معیشت کورونا مریضوں سے زیادہ توجہ حاصل کرنے لگی۔ ریڑھی والے، دیہاڑی والے کی فکر کھائی جانے لگی۔ گویا کورونا سے پہلے ان لوگوں کے وارے نیارے تھے۔ یہ لوگ اس ملک میں شروع سے ہی پسے جا رہے ہیں۔ ان کا خیال اسی وقت آتا ہے جب اپنے اقتدار کو خطرہ ہو، یا ان کے ووٹ کی ضرورت ہو۔ ورنہ کون پوچھتا ہے ان کا؟ کس نے ان کے لیے کوئی پالیسی بنائی ہے اس ملک میں؟ خیرات دینے کے علاوہ ان کے لیے کیا گیا ہے اس ملک میں؟ خیرات تو عام لوگ بھی دے سکتے ہیں۔ دیرپا حل کس نے بنایا ہے؟ ریاست کا کام دیرپا حل نکالنا ہوتا ہے، خیرات دینا نہیں۔ جب بھی مشکل وقت آیا ہے ہمارے ہر دور کی قیادت ان غریبوں کے پیچھے چُھپ گئی ہے!
احساس پروگرام بنایا جاتا ہے۔ کسی پرانے خیراتی پروگرام کا نام بدل دیا جاتا ہے۔ کوئی ٹائیگر فورس بنائی جاتی ہے۔ دن رات غریب غریب کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ گویا پاکستان میں ایک ہی شخص بس غریبوں کا خیرخواہ ہے! سیاست زور و شور سے جاری رہتی ہے۔ نہ لیڈروں کا کوئی اجلاس ہوتا ہے، اور نہ کوئی پالیسی ہی سامنے آجاتی ہے۔ ایک صوبے کی قیادت کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ کیوں کہ اس صوبہ کے منتظم اعلیٰ کی تعریفیں کئی حلقوں سے برداشت نہیں ہو رہیں۔ خیراتی پروگرام شروع کیا جاتا ہے اور سارے لاک ڈاؤن کے انتظامات کی ایسی کی تیسی ہوجاتی ہے۔ غریبوں کے نام پر امیروں یعنی کارخانہ داروں اور تاجروں کو بچایا جا رہا ہے ۔
کورونا بڑھ رہا ہے۔ اس خوف اور خدشے کا اظہار اعلیٰ ترین منصب سے کیا جاتا ہے، لیکن مجال ہے کوئی فیصلہ وہاں سے ہو۔ جو سیاست دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے پر کی گئی، جو ابہام اس کے بارے میں اپنا یا گیا اور جو سستی اس سے نبٹے میں کی گئی، وہی اب کورونا سے جنگ کی حالت میں کی جا رہی ہے۔ اسی ابہام ہی کی وجہ سے نچلی عوامی سطح پر مختلف قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں۔ 43 فی صد لوگ کورونا کو بھی سازش مان رہے ہیں۔ ایک اکثریت اس سے منکر ہے، اور جو لوگ کورونا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنا رہے ہیں، ان کو اسی طرح شک کی نظروں سے عام لوگ دیکھ رہے ہیں جس طرح یہی لوگ ایسے لوگوں کو سوات میں طالبان شورش کے وقت دیکھ رہے تھے۔ اُس وقت وہ لوگ غدار تھے، تو طالبان شورش پر ناراض تھے، اور حکومتِ وقت سے اقدام کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ اب کی بار وہ لوگ غدار ہوں گے، جو کورونا سے بچنے کی احتیاطی تدابیر اپناتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو ایسا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
یہ پورا ابہام اوپر سے پھیلایا جاتا ہے اور کورونا سے تیز پھیلتا ہے جب اوپر قیادت کوئی مؤثر فیصلہ نہ کر سکے اور لاک ڈاؤن کے کسی ممکنہ برے اثر سے ڈرے! غیر معمولی حالات غیر مقبول فیصلے کرنے کے ہوتے ہیں اور یہی قیادت کا اصل امتحان ہوتا ہے، ورنہ بونگیاں تو سپین خان اور لیاقت خان بھی مار سکتے ہیں!
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔