تاریخ کا ایک سیاہ باب

رومی سلطنت 410 عیسوی میں ختم ہوچکی تھی۔ جرمن قبیلوں نے اس پر حملہ کرکے اور شکست دے کر مغربی یورپ میں اس کا خاتمہ کردیا تھا مگر بازنطینی سلطنت جو مشرقی رومن امپائر کہلاتی تھی اور جس کا دارالحکومت قسطنطنیہ تھا، وہ قائم رہی۔ اس عہد میں چرچ بے انتہا طاقتور ہوگیا تھا، اور اس نے غیر سیاسی فلسفے کے تمام نشانات کو مٹا دیا تھا، جس نے یورپ میں علم و ادب کو محدود کرے رکھ دیا تھا۔
اس کے برعکس جب اسلامی دنیا میں عباسی برسرِ اقتدار آئے، تو 813ء میں ہارون الرشید نے بغداد میں دارالحکمت ایک ادارہ قائم کیا، جس میں عیسائی، یہودی اور ہندوستانی علما کو بلایا، تاکہ وہ تحقیق اور تفتیش میں حصہ لیں۔ ادارے میں ایک کتب خانے کا قیام عمل میں آیا جس میں مختلف علوم و فنون پر نادر مسودات جمع کیے گئے۔
جب مامون خلیفہ ہوا، تو اس نے ادارے میں اور زیادہ دلچسپی لی۔ وہ خود علما کی محفل میں شریک ہوتا تھا اور بحث و مباحثہ میں حصہ لیتا تھا۔ دارالحکمت میں اس نے ایک رصدگاہ بھی تعمیر کرائی تھی۔ یہاں پر سنسکرت اور یونانی کتابوں کے عربی میں تراجم ہوئے۔ یہ ادارہ 1258ء تک قائم رہا جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا، تو پہلے اس نے قلعہ الموت میں حسن بن صباح کا قائم کردہ کتب خانہ جس میں مختلف موضوعات پر بیش بہا کتابیں تھیں، اسے برباد کیا۔ پھر دارالحکمت کے کتب خانے کی کتابیں جلائیں اور مسودات کو دریائے دجلہ میں پھینک دیا۔ مؤرخ کہتے ہیں کہ مسودات کی سیاہی سے دریا کا پانی کالا ہوگیا تھا۔ کتب خانوں کی یہ تباہی جمع شدہ علم کی تباہی تھی۔
دارالحکمت میں علمِ ریاضی میں جو تحقیق ہوئی، اس میں الخوارزمی کا بڑا حصہ رہا۔ علمِ ہندسہ میں صفر کی ایجاد ہندوستان میں ہوئی تھی، وہاں سے اسے عربوں نے سیکھا تھا۔ عربوں نے اندلس میں اسے روشناس کرایا اور وہاں سے یہ یورپ گیا۔
(’’تاریخ کی چھاؤں‘‘ از ڈاکٹر مبارک علی، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، اشاعتِ دوم 2019ء، صفحہ 95اور 96 سے انتخاب)