اُردو زبان کے آغاز و ارتقا کے بارے میں محققین نے اپنی تحقیق کے مطابق متضا د آرا پیش کی ہیں۔ان آرا کو جاننے کے بعد انسان چکرا کر رہ جا تاہے۔ محققین کے مطابق اُردو نثر کی باقاعدہ شروعات دکن سے ہوئی۔ یہ البتہ درست ہے کہ بول چال کی زبان وہاں شمالی ہند سے پہنچی۔ یہ تیرہویں صدی عیسوی کی بات ہے۔ اس زبان پر پنجا بی، ہریانی اور کھڑی بولی کا اثر تھا اور اس میں عربی اور فارسی کے بہت سے الفاظ شامل تھے۔ چودہویں صدی عیسوی میں محمد تغلق نے دیو گری کو دولت آباد نام دے کر اپنا دارالسلطنت بنایا۔ دلی کے زیا دہ تر باشندوں کو اس کے ساتھ دکن جا نا پڑا۔ اس طرح شمالی ہند کی ملی جلی بولی کو جسے آگے چل کر ’’ہندی‘‘، ’’ہندوستانی‘‘ اور ’’دکنی‘‘ کہا گیا، دوسری با ردکن میں قدم جمانے کا موقع ملا۔ چودہویں صدی کے آخر میں دکن میں بہمنی سلطنت قائم ہوگئی۔ بو ل چال کی اس زبان کو جو آج اُردو کہلاتی ہے بہمنی سلطنت کے زیرِ سایہ پلنے پھولنے کا خوب موقع ملا۔ تاریخِ فرشتہ سے ثابت ہے کہ وہاں سرکاری کاموں کے لیے یہی زبان استعمال ہوتی تھی۔ وہاں اسے مقبول بنانے میں صوفیائے کرام کا بڑا ہاتھ ہے۔ ان صوفیوں میں بڑا نام خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا ہے۔ 1399ء کو آ پ دہلی سے گلبرگہ پہنچے۔ اس کے وعظ کے بول چال کے لیے یہ عام زبان ہوتی تھی، جو اس وقت ’’ہندی‘‘ یا ’’دکنی‘‘ کہلاتی تھی۔ ان کے اقوال اور نصائح نے تحریر کی شکل بھی اختیار کی۔ اس طرح متعدد کتابیں وجود میں آئیں۔ ایک کتاب ’’معراج العاشقین‘‘ ان سے منسوب ہے۔
یہ بات یقینی ہے کہ بیجاپور کو ایک بزرگ میراں جی شمس العاشقین نے اپنے تبلیغی کا م کامرکز بنایا ۔ انہوں نے تبلیغی افکار کو بول چال
کی عام زبان (یعنی اُردو)میں قلم بند کیا۔ وہ خود اپنی زبا ن کو ’’ہندی‘‘ کہتے ہیں۔ کئی مختصر کتابیں اُن سے منسوب ہیں۔ ان کی تصنیفات میں ’’مرغوب القلوب‘‘ اہم ہے۔ میراں جی نے جو سلسلہ شروع کیا تھا، اسے اُن کے بیٹے برہان الدین جانم نے جاری رکھا۔ ’’کلمۃ الحق‘‘، ’’ہشت مسائل‘‘ اور ’’ذکرِ جلی‘‘ ان کی نثری تصانیف ہیں۔ اُن کے بیٹے امین الدین اعلیٰ نے اپنے خاندانی انداز کو جاری رکھا۔ اس طرح صوفیا کا پیامِ محبت دور تک پھیل گیا اور اس کے ساتھ ہی اُردو کی اس ابتدائی شکل نے دکن میں خو ب فروغ پایا۔’’گنجِ مخفی‘‘ امین الدین اعلیٰ کی مشہور کتاب ہے۔
اُردو نثر کے فروغ میں سترہویں صدی کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ کیوں کہ اس صدی کے وسط میں دکن کے ایک نامور نثرنگار ’’وجہی‘‘ نے اپنی تخلیقات کے سرمائے سے اُردو کو مالامال کیا۔ انہوں نے 1635ء میں اپنی نثری تصنیف ’’سب رس‘‘مکمل کی۔ یہ ایک تمثیل ہے، جس میں حسن، عشق، عقل،دل اور نظر وغیرہ کو مجسم مان کر ایک ایسی داستان تخلیق کی گئی ہے جس سے اخلاق کی اعلیٰ تعلیم ملتی ہے۔ یہ دراصل فارسی تصنیف سے ماخوذ ہے۔ ’’سب رس‘‘ کا اُسلوب مقفیٰ ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس میں غیر معمولی سادگی اور دل کشی پائی جا تی ہے۔ پنچ تنتر اور پتو پدیش کی کہانیوں کو ’’طوطی نامہ‘‘ کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ ترجمے براہِ راست نہیں کیے گئے، بلکہ فارسی زبان سے کیے گئے ہیں۔
قدیم اُردو نثر کے ارتقا میں قرآنِ پاک کے دو تراجم شاہ ولی اللہ دہلوی کے بیٹوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کے قلم سے 1786ء اور 1790ء کو وجود میں آئے۔ مقصد یہ تھاکہ عربی سے واقفیت نہ رکھنے والے قرآنِ شریف کے مطالب سے واقف ہوسکیں۔
اس کے ساتھ ساتھ شمالی ہند میں بھی اُردو کی مقبولیت میں برابر اضافہ ہوتا رہا۔ اورنگزیب اور بہا در شاہ ظفرؔ کے زمانے میں میر جعفر زٹلیؔ نے فارسی اور اُردو کی ملی جلی زبان میں جو مِزاحیہ انداز کے شعر کہے، تویہ ز بان کی مقبولیت اور توانائی کا ثبوت دینے لگے تھے۔
فضل علی فضلیؔ کی ’’کربل کتھا‘‘ شمالی ہند کی پہلی نثری کتاب ہے جو 1731ء میں مکمل ہوئی ۔ اس کے علاوہ فضلیؔ نے ملا حسین واعظ کا شفی کی فارسی کتاب ’’روضۃ الشہداء‘‘کو عوام کی زبان میں منتقل کر دیا، جسے اُردو نثر کی ارتقا میں سنگِ ِمیل کی حیثیت حاصل ہے۔
اٹھارویں صدی عیسوی کے آخر میں اُردو نثر کی جو سب سے اہم کتاب وجو د میں آئی، وہ میر حسین عطا تحسین کی ’’نو طرز مرصع‘‘ ہے۔ یہ ایک فارسی داستان ہے جو ’’قصۂ چہا ر درویش‘‘ کا ترجمہ ہے۔ اس کا اسلوب رنگین اور مقفیٰ ہے۔
ٍٍٍ مغل سلطنت کمزور ہونے کے بعد انگریز، فرانسیسی اور پرتگیزی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا کو ئی موقع ہا تھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ بالآخر 1757ء کی جنگِ پلاسی نے ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ کردیا اور شمالی ہندوستان پر ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کا اقتدار قائم ہو گیا۔
’’ڈچ جو شو اکٹیلر‘‘ نے 1715ء میں ہندوستانی زبان کی قواعد سے متعلق ایک چھوٹی کتاب لاطینی زبان میں لکھی۔ ایک پادری ’’بنجمن شلر‘‘ نے 1744ء میں ایک قواعدکی کتاب لکھی اور 1748ء میں انجیل کا اُردو میں ترجمہ کیا۔’’ گلسٹن‘‘،’’ ہڈلے‘‘ اور ’’فرگوسن‘‘ کے نام قابل ذکر ہیں، لیکن سب سے اہم نام ’’ڈاکٹرجان گلکرائسٹ‘‘ کا ہے۔ ہندوستانی قواعد کے سلسلے میں نہایت بیش قیمت کا م کیا ۔
’’لارڈ ولزلی‘‘ نے کلکتہ میں انگریزوں کو ہندوستانی زبان سکھانے کا منصوبہ پیش کیا، جو دس جولائی 1800ء کو منظور ہوا۔اس کالج میں اُردو پڑھانے کا انتظام کیا گیا۔ اب سارے ملک کے ایسے اہلِ علم جمع ہوگئے، جو کتابیں لکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں میر امن، میر شیر علی افسوس، مرزا لطف علی، میر بہادر علی حسینی، میر حید ر بخش حیدری، کاظم علی جوان، نہال چند لاہوری، للو لا ل جی اور بینی نارائن خاص طور قابلِ ذکر ہیں۔
کتابیں تیار ہونے لگیں، تو انہیں چھاپنے کے لیے کتب خانہ اور پریس قائم کیے گئے۔ بقولِ مولوی عبدالحق ’’جو احسان، ولیؔ نے اُردو شاعری پر کیا تھا،وہی احسان، ’’گلکرائسٹ‘‘ نے اردو نثر پر کیا ہے۔‘‘
1825ء میں دلی میں ایک مدرسہ قائم ہوا۔ اس کا مقصد جدید علوم کو عام کرنا تھا۔ 1831ء میں اسے کا لج کا درجہ حاصل ہوگیا۔ ’’ورناکو لرٹرانس لیشن سوسائٹی‘‘ میں بہت سی فارسی اور انگریزی کتابوں کا اُردو ترجمہ کرایا گیا۔ ماسٹر رام چند ر اور مولانا صہبائی اسی ’’سوسائٹی‘‘ سے متعلق تھے۔ اس ’’سوسائٹی‘‘ کے تحت رامائن، مہا بھارت، دھرم شاستر، لیلا وتی، شکنتلا، گھونش وغیرہ اہم کتابوں کے ترجمے ہوئے ۔ سوداؔ ، میر ؔ،دردؔ اورجرأتؔ کے دیوان شائع کیے گئے۔ 1837ء میں اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔
1857ء کا سال اُردو ادب کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مغل سلطنت کی تہذیب مٹ گئی اور نئی تہذیب آگئی۔ سوچنے کا نیا انداز آگیا۔ شاعری میں حسن و عشق کے قصے بے وقت کی راگنی محسوس ہوئی۔ اُردو ادب کی خوش قسمتی کہ دیو قامت نثر نگار پیدا ہوگئے۔ان نثر نگاروں میں سرسید احمد خان، محسن الملک، مو لوی چراغ علی، نذیر احمد، شبلی نعمانی، مولو ی ذکاء اللہ،اور الطاف حسین حالیؔ وغیر ہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ان نثر نگاروں نے اُردو زبان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور آج اُردو زبان آسان ترین شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
یار زندہ صحبت باقی!
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔