(خصوصی رپورٹ) عالمی یومِ آزادیِ موسیقی ہر سال تین مارچ کو منایا جاتا ہے۔ سوات میں شورش کے دوران موسیقی پر پابندی کی وجہ سے اس کے تمام سکول اور آلات بنانے والی دکانیں بند ہوچکی تھیں، لیکن 2009ء میں امن کے قیام کے بعد اب موسیقی کے سکول اور دکانیں دوبارہ کھل گئی ہیں۔ عالمی یومِ آزادیِ موسیقی کے موقع پر مینگورہ کے گلشن چوک میں میوزک سکول کا دورہ کیا گیا۔ سکول میں داخل ہوتے ہی ’’سا، رے، گا، ما، پا، دھا، نی، سا‘‘ کی آواز اور ہارمونیم کی موسیقی سنائی دی۔ سکول میں گلوگار اور ہنر مند شاہد خان اپنے طلبہ کو ہارمونیم اور گلوکاری کے اسرار و رموز سمجھاتے ہیں۔ فرہاد خان طبلہ اورعظمت خان رباب سیکھاتے ہیں۔ میوزک سکول کے پرنسپل شاہد خان نے کے مطابق اس سکول میں بہت سارے لوگوں نے موسیقی اور موسیقی کے آلات کا استعمال سیکھا ہے۔ روزانہ مختلف اوقات میں کلاسز میں لوگوں کو سکھایا جاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں شاہد خان نے کہا کہ ان کو بچپن سے موسیقی کا شوق تھا، اور پچھلے 24 سال سے وہ اس فن سے وابستہ ہیں۔ سوات میں دہشت گردی کے وقت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت انہوں نے اپنا سکول بند کیا تھا اور نقلِ مکانی سے واپسی پر جب پختہ یقین ہوگیا کہ اب مکمل امن ہے، تو اس کے بعد انہوں نے دوبارہ یہ سکول کھولا۔ شاہد خان کے مطابق سوات کے لوگ موسیقی کے ساتھ جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں، اس لیے سیکھنے کی خاطر آتے ہیں۔
سوات میں طبلہ، رباب اور ہارمونیم بنانے والی دکانوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ زیادہ تر لوگ رباب کے شوقین ہیں، اور رباب خرید کر گھروں اور حجروں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ مینگورہ کے ملا بابا روڈ پر رباب بنانے والے میاں عاشق عثمان کے مطابق وہ پچھلے بیس سال سے رباب بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ شورش کے دوران انہوں نے کچھ عرصہ کے لیے یہ کام چھوڑ کر دکان بند کیا تھا۔ قیامِ امن کے بعد سے انہوں نے دوبارہ آغاز لیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ سید خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن اپنی تسکین کے لیے اس صنعت سے جڑے ہوئے ہیں۔’’اخروٹ اور توت کی لکڑی سے رباب بناتا ہوں۔ بکری کے چمڑے کو بھی استعمال میں لاتا ہوں۔ ایک رباب کی قیمت 7 ہزار سے 20 ہزار روپے تک ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ رباب کی خریداری اضافہ ہوتا جارہا ہے، کمی دیکھنے کو اب تک نہیں ملی۔
سوات میں پہلا باقاعدہ میوزک سکول آج سے 27 سال قبل 1993ء میں افغانستان سے آنے والے ایک ہنر مند انجینئر مومند نے مکان باغ کے اُس وقت کے ایک ہوٹل میں کھولا تھا۔ اپنے سکول میں وہ لوگوں کو موسیقی، رباب، ہارمونیم، طبلہ اور بانسری سکھایا کرتے تھے۔ سیکڑوں لوگوں نے ان سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ 1998ء میں کالعدم تحریکِ نفاذِ شریعت کی سرگرمیوں کے بعد انہوں نے اپنا سکول بند کیا، اور سوات سے چلے گئے۔ اِس وقت انجینئر مومند امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
خواتین فنکار مشہور محلہ’’بنڑ‘‘ مینگورہ میں ریاستِ سوات دور سے فنکار خاندان رہائش پذیر ہیں، لیکن یہ خاندان کسی میوزک سکول میں سیکھنے کے لیے نہیں جاتے۔ اپنے گھر میں خاندان کے ہنر مند مردوں سے سیکھتے ہیں ۔ مشہور گلوکارہ غزالہ جاوید(مرحومہ) اور نازیہ اقبال نے بھی اس محلہ میں اپنے خاندان کے افراد سے موسیقی اور موسیقی کے آلات کا استعمال سیکھا تھا۔