سامراجی قوموں کی یہ پالیسی رہی ہے کہ اپنے سیاسی تسلط کی بنیاد کو اپنی تہذیب اور نسل پرستی پر برقرار رکھتے تھے اور اس ذہنیت کے مالک تھے کہ نوآبادیات کی اقوام نہ صرف غیر متمدن ہیں بلکہ نااہل بھی ہیں۔ اس لیے وہ ایسے شواہد نہیں چاہتے تھے کہ جن سے اُن اقوام کی ذہنی ترقی ثابت ہو۔
ایک طریقۂ کار یہ تھا کہ قدیم آثار کو مٹادیا جائے یا انہیں مسخ کردیا جائے، تاکہ ان کی بنیاد پر وہ کسی قسم کا قومی فخر محسوس نہ کرسکیں۔ کہا جاتا ہے کہ مصر کے ابوالہول کے مجسمے کی ناک پر فرانسیسی سپاہیوں نے نشانہ بازی کی، جس سے وہ مجسمہ مسخ ہوا۔
دوسرا کام یہ کیا گیا کہ جو بھی ان آثار سے اوزار، ہتھیار اور قدیم آلات ملے، ان سب کو اپنے اپنے میوزیم میں محفوظ کرلیا گیا۔ اس لیے اس لوٹ مار کے باعث ان تاریخی اشیا کو ہم یورپ کے ہر میوزیم میں دیکھ سکتے ہیں۔
دوسرا طریقۂ کار یہ تھا کہ اگر کوئی عمارت ان کے فنِ تعمیر کی خوبیوں کو ظاہر کرتی ہے، تو اس سے انکار کیا جائے، مثلاً تاج محل کے بارے میں اول یہ کہا گیاکہ یہ کسی اطالوی ماہرِ تعمیرات کا شاہکار ہے۔ اس کے بعد دوسری کوشش یہ ہوئی کہ مغل دور کی عمارتوں کو توڑا جائے اور مسخ کیا جائے۔ ان میں سے ایک مقصد یہ تھا کہ ان عمارتوں میں استعمال ہونے والا قیمتی سنگ مرمر نکال کر یورپ کی منڈیوں میں فروخت کردیا جائے۔ اس مقصد کے لیے "William Bentick” کے زمانے میں، جو کہ کمپنی کی طرف سے گورنر جنرل تھا، تاج محل کے سنگ مرمر کو نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ اس مقصد کے لیے وہاں مشینیں بھی پہنچ گئیں، مگر عین وقت پر یہ اطلاع ملی کہ یونان کی عمارتوں سے لوٹا ہوا سنگِ مرمر انگلستان کی منڈیوں میں پہنچ گیا ہے، جس کی وجہ سے قیمتیں گرگئی ہیں۔ اس خبر نے تاج محل کو بچا لیا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سامراجی ممالک کو نوآبادیات کے آثار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
(’’تاریخ کی خوشبو‘‘ از ’’ڈاکٹر مبارک علی‘‘، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، پہلی اشاعت، 2019ء، صفحہ نمبر 16 سے انتخاب)