2016ء کی صدراتی الیکشن مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا، ’’مَیں ہندو سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ یہ بیان دراصل بھارت کی ہندو اکثریتی آبادی کا دل لبھانے کی ایک کامیاب کوشش ہی نہیں بلکہ امریکہ میں آباد بھارتی ہندوؤں کے ووٹ بٹورنے اور سیاسی حمایت یقینی بنانے کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔
وزیراعظم نریندر مودی اور صدر ٹرمپ کے مزاج اور اسٹائل میں کئی ایک مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں اپنی ذات کے سحر میں گرفتار ہیں۔ شہرت اور عوامی پذیرائی ان کی کمزوری ہے ۔
گذشتہ برس مودی امریکہ گئے، تو ہیوسٹن کے فٹ بال اسٹیڈیم میں دونوں رہنماؤں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر دنیا کو دکھایا کہ وہ یک جان دوقالب ہیں۔ دونوں کا پس منظر اور سیاسی لب ولہجہ لبرل اور جمہوریت نوازوں کو چبھتاہے۔ کیوں کہ اس سے نسل پرستی اور مذہبی بالادستی کی بو آتی ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ مودی نے انہیں بتایا کہ گجرات میں ایک کروڑ لوگ ان کا استقبال کرنے کے منتظر ہیں۔ مودی کی حکومت ا س دورے کو کامیاب بنانے کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہا رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک سو کروڑ روپے خرچ کیے جارہے ہیں، تاکہ ٹرمپ کا احمدآباد کا دورہ کامیاب ہوسکے ۔
آگرہ اور دہلی کی بھرپور صفائی کی جارہی ہے ۔ غربا کی بستیوں کے باہر دیواریں چن دی گئیں، تا کہ ٹرمپ بھارتیوں کی غربت کی ایک جھلک بھی نہ دیکھ سکیں۔ ابھرتے اور چمکتے ہوئے بھارت کا تاثر ابھارنے کے لیے غربت نہیں مٹائی جا رہی بلکہ غریبوں کو چھپایا جا رہا ہے ۔
مسلمان، ٹرمپ اور مودی دونوں کو ایک آنکھ نہیں بہاتے۔ امریکہ میں ٹرمپ نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جملے بھرے جلسوں میں کسے۔ کانگریس کے فیصلوں کے برعکس امریکہ میں داخل ہونے والے مسلمانوں کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ مودی ہوں یا ان کے وزیرِداخلہ امیت شاہ، دونوں ٹرمپ کو سیاسی گروہ تصور کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی طرح انہوں نے بھی بھارت کے اندر مسلمانوں کے خلاف امتیازی شہری قوانین پاس کرائے ۔
2000ء میں صدر پرویز مشرف کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا کہ امریکی صدر بل کلنٹن کے دورۂ بھارت کا اعلان ہوا۔ دارالحکومت اسلام آباد میں کہرام مچ گیا۔ خصوصی ایلچی د وڑائے گئے واشنگٹن کو ۔ لابنگ گروپوں اور بااثرپاکستانیوں کی مدد سے ترلے کرکے صدر کلنٹن کو چند گھنٹے کے لیے اسلام آباد لایاگیا۔ انہوں نے جمہوریت اور شہری آزادیوں پر پاکستانیوں کو ایک ثقیل لیکچر دیا اور اپنے دیس سدھار گئے۔ اب کی بار اسلام آباد پُرسکون ہے۔ ایسا لگتاہے کہ پاکستانی حکومت اور قوم بلوغت کی منزل پاچکی ہے۔ بھارت کے ساتھ ہر معاملے میں وہ مسابقت اور مقابلے کی فضا سے نکل کر اپنا جہان خود آباد کرنا پسند کرتی ہے۔
صدر ٹرمپ کے دورۂ بھارت سے پاکستانیوں کو کوئی خاص توقع نہیں۔ وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ جہاں چار پیسے کا فائدہ دیکھتے ہیں، ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ جمہوریت، انسانی حقوق، شہری آزادیاں جو مغربی تہذیب کی بنیاد ہیں، کا صدر ٹرمپ چرچا ہی نہیں کرتے ۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، ایک خالص کاروباری کی طرح بھاؤتاؤ کرتے ہیں۔ دنیا کو نفع نقصان کے ترازو میں تولتے ہیں۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے، میرا نہیں خیال کہ امریکی صدر اس کا ذکر کرکے بھارتی میزبانوں کے منھ کا ذائقہ کرکرا کریں گے۔ البتہ سننے میں آیاہے کہ وہ دونوں ممالک سے تناؤ کم کرنے اور لائن آف کنٹرول پر امن برقراررکھنے اور دوطرفہ مذاکرات کی بحالی پر زور دیں گے۔ یہ ایسی بے ضرر خواہشات ہیں جو بھارت خوشی سے ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا ہے ۔
بھارتی بڑے کائیاں ہیں۔ وہ امریکیوں کو چین کا ہوا کھڑا کرکے مسلسل خوف زدہ کیے رکھتے ہیں۔ بھارت خطے میں چین کے متبادل کے طور پر ساٹھ کی دہائی سے اپنے آپ کو پیش کر رہا ہے۔ وہ امریکیوں کو مشترک اقدار یعنی جمہوریت اور الیکشن وغیر ہ کی دہائی دے کر چین کے خلاف اکساتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہ داری نے بھارت کو امریکہ کے پاکستان کے خلاف کان بھرنے کا ایک نادر موقع عطاکیا۔ چناں چہ وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، جب سی پیک کو خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ قراردیتا نہ ہو۔
اتفاق سے امریکہ بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے، تو دونوں کے پروپیگنڈے کی طاقت بہت بڑھ جاتی ہے۔ امریکہ کی جنوبی اور وسطِ ایشیائی امور کی نائب سیکریٹری ایلس ویلز نے ایک نہیں تین مرتبہ پاکستانیوں کو بن مانگے مشورہ دیا کہ وہ سی پیک سے بچیں۔ یہ انہیں قرضوں کے جال میں جھکڑنے کی ایک چینی چال ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ چین اس وقت دنیا میں قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے، تاہم یہ قرضے دینے کی اپنی شرائط کو شائع نہیں کرتا جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو سی پیک کے حوالے سے چینی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھانے چاہئیں۔
گذشتہ دنوں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹیڈیز اسلام آباد میں چین کے سفیریاؤ جنگ نے ہمیں بتایا کہ امریکہ نے انڈو چائنا پالیسی میں چین کو دشمن اور علاقائی تزویراتی حریف قرار دیا ہے۔ یاؤ جنگ کہہ رہے تھے کہ چین امریکہ کو چیلنج نہیں کرتا۔ دنیا میں وہ ایک باعزت مقام ضرور چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات مسلسل بگڑ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سردجنگ رفتہ رفتہ خطرناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ سفیریاؤ جنگ کہہ رہے تھے کہ ہم جتنا بھی اچھے ہوں امریکہ نے ہمیں دنیا کے سامنے برا بنا کر پیش کرنا ہے۔ وہ چین کو کسی بھی صورت میں ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کرتے نہیں دیکھنا چاہتا۔
پاکستان نے سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ممالک سے تعلقات قائم رکھے ۔ چین ہمسایہ بھی ہے اور قابل اعتماد دوست بھی۔ امریکہ دوست ہے اور ہرجائی بھی۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے شراکت دار بھی ہیں اور بسااوقات دشمنوں کی طرح ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ امریکیوں نے مشکل حالات میں ہماری مدد بھی بہت کی، اور آزمائش کے کئی مراحل میں بے یار ومددگار حالات کے رحم وکر م پر چھوڑ دیا۔ تلخ و شیریں یادیں دونوں ممالک کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ افغانستان میں پاکستان کے کردار نے دونوں ممالک کے لیے تعلقات کو مثبت بنیادوں پرازسر نو استوار کرنے کا ایک تاریخی موقع پیدا کیا ہے ۔
امریکی خوش ہیں کہ پاکستان کی مدد سے وہ طالبان سے معاہدہ کرنے کے قابل ہوئے۔ امید ہے کہ اگلے برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتری کی طرف گامزن رہیں گے اور ان پر امریکہ اور بھارت کی دوستی کی منفی چھاپ نہیں پڑے گی۔ یہ تنی ہوئی رسی پر سفر کی مانند ہے کہ آپ دو حریفوں کے ساتھ متوازن تعلقات بھی رکھیں، ان کے ہاتھوں استعمال بھی نہ ہوں۔
………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔