پاکستان جس نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، وہ نظریہ کبھی اتنا مؤثر، جان دار اور فعال تھا کہ اس نے دنیا کے ایک گرے پڑے پس ماندہ، اجڈ، تہذیب و تمدن سے عاری اور نابلد حکومت و سیاست اور اجتماعی زندگی کے تصور سے خالی، منتشر و متفرق قبائل کے ذریعے دنیا کی دو عظیم سلطنتوں اور تہذیبوں کو شکست و ریخت سے دوچار کرکے ایک نئی اسلامی تہذیب و ثقافت پر مشتمل ترقی یافتہ امت کی تشکیل کی۔ جس کے اثرات و باقیات آج 1441 سال بعد بھی دنیا کے ایک بڑے حصے میں موجود ہیں۔ اس اسلامی نظریے کی بنیاد پر یہ مملکتِ خداداد وجود پذیر ہوئی۔ ہندوستان سے ہماری علیحدگی کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ ہم دین، ایمان، عقیدے، نظریے اور تہذیب و تمدن کے لحاظ سے ایک علاحدہ قوم ہیں۔ اس لیے ہم اپنے نظریے اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے اپنا ایک الگ اور علیحدہ ملک چاہتے ہیں۔ ہندوستان سے علیحدگی کی یہ تحریک مختلف وجوہات کی بنیاد پر کامیاب ہوئی اور پاکستان کے نام سے ایک نظریاتی ملک دنیا کے جغرافیہ پر نمودار ہوا، لیکن جو امیدیں، توقعات اور آرزوئیں اس نو مولود مملکت سے مسلمانانِ ہند نے وابستہ کی تھیں۔ وہ سب کی سب خوابِ پریشان کی طرح پراگندہ اور منتشر ہوگئیں۔
کن عناصر نے اس ملک کے مقصدِ وجود کو اغوا کیا؟ اس کے بنیادی مقصد اور نصب العین سے غداری کی؟ اور اس عظیم نظریاتی مملکت کی ترقی و عروج کے تمام امکانات کو دریا برد کیا؟ یہ تاریخ اس دور کے تمام پڑھے لکھے باشعور طبقے کو معلوم ہے۔ لیکن آج 72، 73 سال بعد جب ہم اس ملک کے مسائل پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں مسائل ہی مسائل نظر آتے ہیں۔ عام لوگ تو ہمیشہ سے پیٹ اور روزی روٹی کی بنیاد پر سوچتے ہیں۔ وہ ان عوامل اور پسِ پردہ محرکات کا شعور نہیں رکھتے، لیکن جو اہلِ نظر ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے؟
بحیثیتِ قوم اور ملت ہمارا اصل مسئلہ ہمارا اپنے نظریۂ حیات دینِ اسلام سے روگردانی اور بغاوت ہے۔ جس نظریے کی بنیاد پر یہ ملک قائم ہوا، ہم نے اس نظریے کو مسترد کیا۔ اس کو پسِ پشت ڈال دیا، جس کے نتیجے میں ہمارا اخلاقی اور روحانی وجود متاثر نہیں بلکہ ختم ہو کر رہا۔ حالاں کہ اسی اخلاقی اور روحانی طاقت پر ہماری بقا، سلامتی اور ترقی کا دارومدار تھا۔ اس اخلاقی اور روحانی بنیاد کے ختم ہونے کی وجہ سے ہماری قومی اور ملی عمارت میں دراڑیں پڑ گئیں اور ہماری قومی و ملی جسد کو طرح طرح اور قسم قسم کے عوارض و بیماریاں لاحق ہوگئیں۔
اس وقت عالمی سطح پر قوموں کی برادری میں ہماری حیثیت شرمناک حد تک کمزور ہے۔ بد عنوانی اور کرپشن کی وجہ سے ہماری معیشت اس حد تک کمزور ہے کہ ہم اپنا سالانہ میزانیہ عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات و ہدایات اور شرائط کے مطابق تشکیل دیتے ہیں۔ ہم کچکولِ گدائی ہاتھ میں لیے ہر ملک کے دروازے پر قرض اور خیرات مانگنے کے لیے کھڑے ہیں، اور اسی کمزور معیشت اور ہر ملک کے مقروض ہونے کی وجہ سے ہماری قومی خود مختاری داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
اس طرح اگر ہم اپنی قومی قیادت اور لیڈر شپ کا جائزہ لیں، تو ہمارے سامنے نہایت مایوس کن اور حد درجہ شرمناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ 72 سال کے دوران تقریباً پینتیس سال اس قوم پر فوجی حکمرانوں نے حکومت کی، اوران فوجی حکمرانوں کو سویلین معاملات میں مداخلت کا موقع نااہل اور موقع پرست سیاستدانوں نے مہیا کیا۔ لیاقت علی خان، غلام محمد، سکندر مرزا، دولتانہ اور بھٹو سے لے کر ہم نواز زرداری اور عمران خان کی قیادت اور رہنمائی تک پہنچ گئے اور آج تحریکِ انصاف کی عمران خان کی قیادت میں جو ملکی صورت حال ہے، وہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے اور عالم و جاہل کو معلوم ہے۔
عوام و خواص سب مل کر گرانی اور مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔ اس 18 ماہ کے دوران ملک میں بہت ساری صنعتیں مختلف وجوہات کی بنیاد پر بند ہورہی ہیں، جس کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی ذمہ داران قومی اسمبلی اور سینٹ میں تکنیکی اعداد وشمار اور عوام کی سمجھ میں نہ آنے والی زبان میں ملکی معیشت کی بحالی کی نویدیں سنا رہے ہیں، لیکن جو زمینی حقائق ہیں، وہ ایک عام آدمی کو روزمرہ کی اشیائے صرف کی خریداری کے دوران میں سامنے آتے ہیں۔ اور وہ حکمرانوں پر تبرا او سب و شتم کی بارش کرکے اپنے دل کا غبار نکال لیتے ہیں۔ بجلی اور گیس کے نہ ہونے کے لیے لوڈ شیڈنگ کا خوبصورت لفظ ایجاد کیا گیا ہے، لیکن جب مہینے کے اختتام پر بل آتے ہیں، تو لوگ دل و جگر دونوں تھام کر بل پر ایک خوف زدہ نظر ڈال کر بے ہوشی کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔
اخبارات اٹھا کر دیکھتے ہیں، تو احتجاج ہی احتجاج۔ اور ہڑتالیں ہی ہڑتالیں سرخیوں کی شکل میں منھ چڑاتی ہیں۔ قبائلی ایجنسیوں کو صوبے میں ضم کرکے عرصہ ہوا لیکن انتظامی صلاحیت اور قابلیت کا یہ حال ہے کہ وہاں پر کئی ایجنسیوں میں دوبارہ جرگہ سسٹم بحال کیا جار ہا ہے۔ اتنے عرصے میں حکومتی نظم کے ادارے قائم نہیں کیے جا سکے۔ یہ کس طرح کی انتظامیہ ہے؟
اس طرح اگر صوبائی وزیر اعلیٰ اور کابینہ پر نظر ڈالیں، تو وزیر اعلیٰ اور وزرا کے بیانات اور تقریریں تو نظر آتی ہیں، لیکن معاشرے میں وہی افراتفری، بد نظمی اور آپا دھاپی ہے کہ گویا حکومت نامی کوئی ادارہ یا چیز موجود نہی نہیں۔ جو شخص اس دعوے کے ساتھ برسر اقتدار آیا تھا کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ’’کرپشن‘‘ اور ’’منی لانڈرنگ‘‘ ہے اور میں اسے ختم کرکے اور بیرونی ملکوں میں چھپایا گیا سرمایہ واپس لا کر معیشت کو مضبوط کر دوں گا۔ اسی شخص نے صرف 17 ماہ میں کرپشن کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اور ’’این آر اُو نہیں دوں گا‘‘ کا نعرہ ہر تقریر میں لگانے والا ’’این آر اُو‘‘ دے کر اپنی کرسی بچانے کے لیے ہاتھ پاوں مارہا ہے۔ ’’احتساب احتساب‘‘ کی رٹ لگانے والے نے احتساب کے ادارے کو ہی ختم کر دیا۔ تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ جب اپنے لوگ کرپشن میں ملوث ہیں، تو پھر احتساب کیسا اور کس کا؟
مک مکا کا الزام لگانے والے نے دونوں کرپشن زدہ پارٹیوں کے ساتھ مک مکا کرکے اپنی دانست میں اپنی حکمرانی کو مضبوط کیا۔ غضب خدا کا، اتنا دبنگ لہجہ اور اتنا زور دار بیانیہ کہ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دوں گا، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرکے بے روز گار وں اور بے گھر لوگوں کو سر چھپانے کے لیے چھت فراہم کروں گا، اس کے اقدامات کے نتیجے میں لوگ آج ایک بوری آٹے کے لیے ٹرکوں کے سامنے قطار بنائے کھڑے ہیں۔ اور وہ جو جھوٹے دعوے اور فضول نعرے لگاتا تھا، آج معلوم نہیں کن حصاروں میں قید اور چھپا ہوا ہے؟
وہ پروٹوکول نہ لینے والا آج عوام کے سامنے آنے کی جرأت نہیں کرتا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے وزیروں کے لیے سڑکیں بند کی جاتی ہیں اور عوام کو عذاب میں ڈالا جاتا ہے۔
ووٹ کے ذریعے آنے کا دعویٰ کرنے والا آج میڈیا کا سامنا نہیں کر سکتا۔
وہ (عمران خان) جو ہر روز کسی نہ کسی چینل پر انٹرویو پر انٹرویو دیتا ہوا نہیں تھکتا تھا۔ آج کا اندازہ اس کی کابینہ کے ارکان سے لگایا جاسکتا ہے۔ اتنی غیر سنجیدہ، ناشائستہ آداب و روایات سے نابلد لوگ اس سے پہلے اس قوم نے نہیں دیکھے۔ بھلا ذرا فیصل واوڈا کا ٹی وی شو میں فوجی بوٹ لانے اور سامنے کاؤنٹر پر رکھنے سے اندازہ لگائیں کہ اس شخص نے اس فوجی بوٹ کے ذریعے پاکستان کے عوام کو کیا پیغام دیا؟ اور فوج جیسے واحد منظم اور قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے کی ساکھ کو پوری دنیا میں کس طرح مجروح کیا، لیکن اتنے بڑے سکینڈ ل کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، اور صرف چند ہفتوں کے لیے اس پر ٹاک شوز میں شرکت پر پابندی کافی ’’سزا‘‘ سمجھ لی گئی۔ حالاں کہ اس حرکت پر دفاعی ادارے کو بھی سخت نوٹس لینا چاہیے اور اگر عمران خان میں ذرا بھی سیاسی اور جمہوری شعور ہے، تو پہلی فرصت میں اس شخص کو کابینہ سے فارغ کر نا چاہیے۔ لیکن جب خود لیڈر کا یہ حال ہو کہ وزیر اعظم ہوتے ہوئے اس کا لب و لہجہ اور اندازِ تقریر ڈی چوک والا ہو، تو وزیروں مشیروں سے کیا گلہ اور کیا شکوہ؟
17، 18 ماہ حکومت کرنے کے باوجود صوبائی اور قومی سطح پر ذمہ دار حضرات، اہل انتظامی افسران کی نشان دہی سے قاصر رہے، اور آئے روز انتظامی طور پر ردوبدل اور تبادلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جس کی وجہ سے بیوروکریسی میں ایک قسم کا تعطل اور ڈیڈلاک ہے۔ غرض ایک مسئلہ نہیں جس کو ہم سہو، فروگذاشت اور غلطی پر محمول کریں۔
آپ عمران خان صاحب کی سیاسی اور انتظامی فراست و تدبر اور سنجیدگی کا اندازہ آرمی چیف کی توسیعِ ملازمت سے لگائیں۔ ایک سیدھا سادا مسئلہ جس کو اگر اصولی بنیاد پر طے کیا جاتا کہ جب آرمی چیف کی مدت ملازمت پوری ہوگئی ہے، تو آئینی اور دستوری طریقِ کار کیا ہے؟ کیا آٹھ لاکھ فوج صرف ایک آدمی کی قیادت و صلاحیت کی محتاج ہے؟ اگر ایسا ہے، تو یہ تو بہت خطرناک صورتِ حال ہے۔ کیوں کہ آدمی تو بہر حال فانی ہے، اور ادارے ایک آدمی کے مرہونِ منت نہیں ہوتے۔
لیکن ایک طرف آپ کے اس اقدام سے مخالفین کا یہ دعویٰ صحیح ثابت ہوا کہ آپ خفیہ طاقتوں کے ذریعے پلانٹ کیے گئے ہیں۔ دوسری طرف آپ نے ایک معمولی انتظامی مسئلے کو سپریم کورٹ سے لے کر قومی اسمبلی میں ترمیمی بل منظور کرانے تک اتنا گنجلک اور مضحکہ خیز بنا دیا کہ آرمی چیف کی تین سالہ توسیع کے ذریعے آرمی چیف کی شخصیت کو بھی گہنا دیا۔ بہرحال اس سارے عمل سے ایک بات اور حقیقت واضح طور پر سامنے آگئی، کہ ان سب کا قبلہ ایک ہے۔
ترے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
نوازشریف جیسے بدعنوان شخص کا جھوٹا نعرہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ بھی طشت ازبام ہوا۔ زرداری کے جمہوری غبارے سے بھی ہوا نکل گئی اور عمران خان کے جھوٹے نعرے اور وعدے بھی بیچ چوراہے رسوا ہوگئے۔ ان سب کے لیے اصل چیز بس اقتدار ہے، چاہے وہ فوج کے ذریعے ہو، دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے ہو یا کسی دوسرے ذریعے سے۔ بس اقتدار ہی اصل مطلوب و مقصود ہے۔
لیکن بات پھر وہی اصل کی طرف لوٹتی ہے کہ مدنی ریاست کے قیام کا نعرہ لگانے والا عمران خان اگر سچا پکا مسلمان ہوتا، اپنے دین، ایمان اور عقیدے پر سچا یقین و اعتماد رکھتا، تو قوم کے سامنے سب سے پہلے اپنا نمونۂ عمل پیش کرتا۔
چلیے، آپ پارٹی کے منتخب ہونے والے نااہل افراد کو رکھنے پر مجبور ہیں، لیکن باہر سے جو مشیر آپ نے رکھے ہیں، ان کا انتخاب تو آپ دیانت، امانت، اخلاص و تقویٰ اور صلاحیت و قابلیت کی بنیاد پر کرتے۔ اگر آپ کے دل میں ذرا بھی دین و ایمان کی روشنی ہوتی، تو آپ کبھی بھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے اور صرف چھ ارب ڈالر کے عوض پوری وزراتِ خزانہ ان کے حوالے نہ کرتے۔
اگر آپ کے اندر دینی اور ایمانی فراست ہوتی، تو آپ کبھی محمد بن سلمان کی دھونس دھمکیوں میں آکر ملائشیا سمٹ میں شرکت سے انکار نہ کرتے اور جب آپ اس سمٹ میں شرکت کرکے ایک آزاد، خود مختار اور حقیقی برادر ملکوں کے اتحاد میں شریک ہوتے، تو پھر آپ دیکھتے کہ آپ کی قدروقیمت کتنی بڑھتی، اور آپ کا قومی قد کتنا بلند ہوتا۔ آپ امریکی اتحاد کے ’’آکٹوپس‘‘ کے چنگل سے نکل کر آزاد فضاؤں میں اُڑان بھرتے۔ لیکن پھر وہی بات کہ اس کے لیے تو فراست و تدبر کے ساتھ جرأت و عزیمت اور قومی خوداری اور غیرت درکار ہوتی ہے، جو بد قسمتی سے شروع ہی سے ہماری قیادت میں موجود نہیں۔
آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ملک کے محل و قوع وسیع رقبے بائیس کروڑ آبادی، آٹھ لاکھ فوج کی بنیاد پر ملائشیا ترکی اور ایران سے زیادہ باوسائل، مال دار اور طاقتور ہیں۔ اگر ترکی یورپ کے قلب میں اپنی آزاد خارجی و داخلی پالیسیاں بنا سکتا ہے، اور اگر ملائشیا ساٹھ فیصد مسلم اکثریت کی بنیاد پر آزاد و خودمختار رول ادا کر سکتا ہے، تو آخر آپ کیوں امریکی غلامی پر مصر ہیں؟
جناب! ان تمام مسائل و مشکلات کا ایک ہی حل ہے کہ اپنے اصل ’’دینِ اسلام‘‘ سے جُڑ جائیں۔ اسلام کو اپنی شناخت بنائیں۔ اللہ رب العالمین اور احکم الحاکمین کی مدد و تائید پر بھروسا کرکے ببانگِ دہل اعلان کریں کہ ہاں ہم مسلمان ہیں۔ ہمارا اپنا نظامِ زندگی اور ضابطۂ حیات ہے۔ ہمارا اپنا تصورِ زندگی ہے، اور ہم ہی دنیا کو امن و سلامتی کا نظام دے سکتے ہیں۔
یقین کیجیے، اگر یہ نعرہ آپ نے لگایا، تو آپ سربلند و سرخرو ہوں گے۔ کیوں کہ اللہ کا وعدہ ہے :’’وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔‘‘
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔