13 فروری، شہریار کا یومِ انتقال

وکی پیڈیا کے مطابق بھارت کے مشہور شاعر شہریار13 فروری 2012ء کو علی گڑھ میں انتقال کرگئے۔
وہ اُتر پردیش میں ایک مسلم راجپوت خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد ابو محمد خان ایک پولیس افسر کے طور پر متعین تھے۔ شہریار بچپن کے زمانے میں ایک ایتھلیٹ بننا چاہتے تھے، تاہم والد پولیس کی ملازمت میں شامل کروانا چاہتے تھے۔ تبھی وہ شاعر خلیل الرحمان اعظمی کی رہنمائی میں گھر سے بھاگ گئے۔ فکرِ معاش کی تکمیل کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو فکشن پڑھانے لگے، جہاں بعد میں پی ایچ ڈی مکمل کیا۔
شہریار کا پہلا مجموعۂ کلام ’’اسم اعظم‘‘ 1965ء میں چھپا۔ دوسرا مجموعہ ’’ساتواں در‘‘ 1969ء میں منظرعام پر آیا۔ اس کے بعد تیسرا مجموعہ ’’ہجر کے موسم‘‘ 1978ء میں جاری ہوا۔ ’’شاہ کار خواب کے در بند ہیں‘‘ 1987ء میں شائع ہوا جسے ’’ساہتیہ اکیڈمی‘‘ کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کے علاوہ پانچ اور مجموعاتِ کلام شائع کیے۔
2008ء میں شہریار وہ چوتھے اردو ادیب بنے جنہیں ’’گیان پیٹھ ایوارڈ‘‘ حاصل ہوا۔ ان سے پہلے یہ اعزاز فراق گورکھپوری، علی سردار جعفری اور قرۃالعین حیدر کو حاصل ہوا تھا۔
ایک انٹرویو میں شہریار نے کہا تھا کہ 1965ء میں جب وہ کافی کلام جمع کر چکے تھے، انہوں نے شمس الرحمان فاروقی کو لکھا کہ وہ یا تو اپنے پیسوں سے اس مجموعے کو چھاپ سکتے ہیں، یا شادی کرسکتے ہیں۔ اس پر فاروقی کا جواب یہ تھا کہ وہ اسے مجموعے کو چھپوائیں گے، جب کہ شہریار شادی کر سکتے ہیں۔