کلامِ روغانےؔ میں طنز و مِزاح کا عنصر

طنز و مِزاح دو ایسے کیمیائی مفردات کی مانند ہیں جن کی تقسیم کسی طرح ممکن نہیں،بلکہ یہ کسی مِزاح نگار کا کارنامہ ہو تا ہے کہ وہ ان کے درمیان تواز ن قائم رکھے۔ عبد الرحیم روغانےؔ سوات میں پشتو ادب کے حوالے سے ایک زندہ و تابندہ نام ہیں۔ پشتو ن شعرا میں آپ ’’بابائے قطعہ‘‘ کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک طرف اگر سیاسی و سماجی موضوعات کے علاوہ عشق کی رنگینی پائی جاتی ہے، تو دوسری طرف آپ طنز و مِزاح میں بھی نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ طنز بڑی جان جوکھوں کا کام ہے۔ روغانےؔ ؔبابا معاشرے کے سنگ دلانہ کردار کی نشان دہی کرتے ہوئے نہایت کٹیلے انداز میں عوام کے اوپر ہو نے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ اس لیے طنزیہ انداز میں مسئلہِ کشمیر کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں:
کلہ شیعہ سُنی پہ شر ورولہ
کلہ پہ کور کی افغانان جنگوہ
تازہ ساتہ دَ کشمیر شنڈہ لانجہ
پری پاکستان او ہندوستان جنگوہ
یعنی اے مکّار اور چالاک دشمن، تیرا کام ہی شیعہ اور سنی فسادات کروانا ہے۔ نیز تم ہی افغان بھائیوں کو آپس میں لڑاتے ہو۔ پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کی وجہ اصل میں کشمیر نہیں۔ یہ تو محض ایک بہانہ ہے۔
روغانے ؔباباآج کے انسانوں میں پائی جانے والی غفلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
دَ منگوڑو، سپگو، ماشو چی خوراک شوم
دغہ ٹولہ ناراستی، قصور زما دے
مطلب یہ کہ میں اپنی لاپروائی کی وجہ سے جوؤں اور مچھروں وغیرہ کی خوراک بن گیا ہوں۔ اگر میں اتنا سُست نہ ہوتا اور اپنا کام وقت پر کرتا، تو یہ نو بت نہ آتی۔
روغانے ؔبابا کی شاعری تکنیک کے اعتبار سے عام انسان کی محسوسات نہیں، وہ اپنے اندر ایک الگ دنیا رکھنے والے انسان ہیں۔ ان کی شاعری میں مِزاحیہ رنگ اور شگفتہ مزاجی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ان کی طنزیہ شاعری غموں میں توازن پیدا کرکے اسے جھیلنے کی صلاحیت بخشتی ہے۔ روغانےؔ بابا زندگی کے دکھوں کی جتنی آگاہی رکھتے ہیں، وہاں ایک عام آدمی کا گزر بھی مشکل سے ہو تا ہے، مگر اس دکھ میں رہتے ہوئے بابا پھر بھی مِزاح پیدا کرتے ہوئے اپنی مزاحیہ نظم ’’ڈوزی‘‘ میں یوں کہتے ہیں:
ٹو ل جہان پہ خپل یو موٹی کی رانیسم
کش چی راکاگم دَ چرسو دَ چیلم نہ
زہ یو داسی پہلوان یم پہ نڑئی کی
چی پہ گوتو تیل اوباسم دَ شڑشم نہ
روغانےؔ بابا کہتے ہیں کہ آج کا انسان اپنے آپ کو بڑا طاقت ور سمجھتاہے، لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ وہ اصل میں جب چرس پینے لگتا ہے، تو خیالی دنیا میں کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہاں انہوں نے مِزاح ہی مِزاح میں چرس پینے والے حضرات کی خوب خبر لی ہے۔ ویسے تو طنز و مِزاح کی جڑیں ہماری سیاسی و سماجی زندگی میں دُور تک پھیلی ہو ئی ہیں، لیکن روغانے ؔبابا اپنے مخصوص لب و لہجہ اور فن کے ذریعے دیگر مِزاح نگاروں میں الگ مقام رکھتے ہیں۔ ان کا طنز تیر کی طرح تیز اور بامعنی ہے۔ روغانے باباؔ ہماری زندگی سے متعلق ایک اور حقیقت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
زوڑ د جہالت خیرے ہر گز وینزلے کیگی نہ
کشر بہ پہ لار شی خو بابا بہ سوک پہ لارہ کڑی
خدائی وائی رنزور تہ چی قلار شہ روژے مہ نیسہ
منع بہ نمسئی شی خو اَبئی بہ سوک قلارہ کڑی
یعنی رمضان کے دنوں بیماروں کو روزے معاف ہیں، جنہیں بعد میں بھی رکھا جا سکتا ہے، لیکن روغانے باباؔ ہمارے بزرگوں کی جہالت بیا ن کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بعض معاملات میں بچوں اور جوانوں کو تو با آسانی سمجھایا جاسکتا ہے، لیکن ڈھیٹ بزرگوں کا سنبھالنا مشکل ہو جا تا ہے۔
جس طرح ایک قلم کار اور خاص کر شاعر اپنے ارد گرد کے ماحول سے اپنی تحریروں کے لیے مواد حاصل کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح روغانے باباؔ بھی معاشرے کو دیکھ کر ذہانت سے کام لیتے ہوئے اپنی تحریر میں ایسے لطیف نکتے پیدا کرتے ہیں کہ انسان خواہ مخواہ ہنسنے پر مجبو ہو جا تا ہے۔
چی پہ شکل زنگلی وی، مونگ تہ دا سڑے ولی وی
فرشتہ وایو شیطان تہ، جعلی راتہ اصلی وی
شیخ زاہد بہ راتہ خکاری، حقیقت کی شیخ چلی وی
سیاسی مشر مو سہ وی دَ دروغو بنڈلی وی
یہاں روغانے باباؔ سیاسی لیڈروں کے جھوٹ پر مبنی وعدوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ایک انسان کی شکل کو دیکھ کر ایک تاثر قائم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کھرے اور کھوٹے کی پہچان میں غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ ہم سیاسی رہنماؤں کی شکلوں پر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ حالاں کہ وہ سارے جھوٹے ہو تے ہیں۔
روغانے با باؔ جا بجا ایسے انسانوں کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں جن کامعاشرے میں اہم کردار ہو تا ہے اور بد قسمتی سے وہ اپنے منفی کردار کے ذریعے لوگوں کی پہچان کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ایسے ہی وہ آج کل کے مُلّا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہو ئے کہتے ہیں:
د خکلی خوئی پہ وجہ خو سم زوے د پیغمبر دے
خو صرف د پختون نہ کہ خارجہ انتہا شی
کہ پیر شی پروا نشتہ تبلیغی کہ شی نو خیر دے
خو ورورہ! چی پختون کلہ مُلا شی نو بلا شی
مطلب یہ کہ بعض پٹھانوں میں یہ خامی پائی جاتی ہے کہ جب انہیں مرتبہ مل جا تا ہے، تو وہ انسان کے لباس میں شیطان بن جاتے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ اگر کوئی پیر بن جائے یا تبلیغی تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر پختون مُلّا بن جائے تو پھر کیاکہیے۔
روغانے باباؔ ہمارے معاشرے کے نباض ہیں۔ ہمارے لوگوں میں افسر اور نوکر کے تصور کے بارے میں ان کا خیال ملاحظہ ہو:
شے چرتہ سہ بل دے نوم یے نہ رازی
یہ رورہ خو تا تہ بہ سڑے خکاری
دوست دشمن تہ نہ گوری وردانگی پری
صیبہ! دا نوکر دی راتہ سپے خکاری
یعنی بعض نوکروں کو کتّے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اکثر اوقات ان کا رویہ انسانی نہیں ہوتا، بلکہ وہ دیگر لوگوں کے ساتھ کتوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ حقیقت میں شاعر نوکر کو نہیں بلکہ اس کے ما لک کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ کیوں کہ نوکر خود سے کچھ بھی نہیں کرتا، وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے مالک کے اشارے پر کرتا ہے۔
اسی طرح معاشرے کی ناہمواریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نظام پر بھر پور طنز کرتے ہیں۔
دظلم بجٹ پہ خپل زور د غریب سٹ ماتوی
بچو لہ ٹوک ڈوڈئی گٹل مزدور لہ مٹ ماتوی
خواران وچیگی خاؤری کیگی ، او غٹان اوگورہ
دومرہ غٹکٹ وی چی پہ کٹ کی کینی کٹ ماتوی
ان کے طنز میں قوت اور بیداری پائی جاتی ہے۔ وہ طنز میں اس مقصد کے لیے نشتر زنی سے کام لیتے ہیں۔ پشتو شاعری میں انہوں نے طنز و مزاح کی جس روایت کا آغاز کیا، اس میں خلوص، صداقت اور جوش کے عنصر نمایاں ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ادب کی خدمت کے لیے لمبی عمر عطا کرے، آمین!
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔