ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک علاقہ میں نیا ایس ایچ اُو تعینات ہوا۔ ایس ایچ اُو کو کسی نے کہاکہ علاقہ میں ہیرونچیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ آج کل زیادہ ہیرونچی علاقہ کے بڑے قبرستان میں ہیروین پینے جاتے ہیں، جس سے قبرستان کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ ایس ایچ اُو نے عملہ کو الرٹ کیا اور نفری کے ہمراہ قبرستان پر چھاپا مارا۔ کچھ ہیرونچیوں کو گرفتار کیا جب کہ دیگر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک عقل مند ہیرونچی چادر سر پر ڈال کر ایک قبر کے پاس بیٹھ گیا، اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگا۔ اتنے میں ایس ایچ اُو مع نفری وہاں پہنچا، تو دیکھا کہ ایک ہیرونچی ایک چھوٹے بچے کی قبر پر دعا کر رہا ہے۔ ایس ایچ اُو نے پوچھا، بھئی، کیا کر رہے ہو؟ تو ہیرونچی نے جواب دیا کہ آج مرحوم والد صاحب بہت یاد آ رہے تھے، اس لیے مَیں اُن کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آیا ہوں۔ ایس ایچ اُو نے دیکھا کہ قبر تو ایک چھوٹے سے بچے کی ہے۔ اس لیے پوچھا کہ یہ تو بچے کی قبر ہے۔ حاضر جواب ہیرونچی نے ایس ایچ اُو کو کہا کہ میرے والد صاحب بچپن میں وفات پا چکے تھے۔ اس لیے ان کی قبر بھی چھوٹی ہے۔ یہ سن کر ایس ایچ اُو بھی آب دیدہ ہوگیا اور ہیرونچی کو تسلی دے کر چلتا بنا۔ تھانہ پہنچ کر ایک پولیس اہلکار نے ایس ایچ او صاحب کی ہیرونچی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا، سر اگر اس ہیرونچی کا والد بچپن میں فوت ہوگیا تھا، تو پھر قبر کے پاس بیٹھا وہ ہیرونچی کیسے پیدا ہوا؟ یہ سن کر ایس ایچ اُو کی ہنسی چھوٹی، لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔
قارئین، اتوار کی شام سوات پولیس کی جانب سے ایک پریس ریلیز ملی جس میں انہوں نے ن لیگی رہنماؤں عبدالغفور اور عثمان غنی کی گرفتاری جس طریقے سے ظاہر کی تھی، تو اس خبر کو بناتے ہوئے مجھے تمہید میں ذکر شدہ کہانی یاد آگئی۔ سوچا کہ آپ حضرات کے ساتھ بھی اسے شیئر کرتا چلوں۔ ہوا یوں کہ 13 جنوری کو کبل پولیس نے سابق امیدوار صوبائی اسمبلی عبدالغفور اور سابق تحصیل کونسلر عثمان غنی کے خلاف محکمہ سوئی گیس کے حکام کی تحریری درخواست پر ایف آئی آر درج کرائی، جس میں ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے سوئی گیس کا پائپ چوری کرکے مختلف مقامات پر رکھا ہے۔ نیز ملزمان نے سوئی گیس کے عملہ پر حملہ کیا ہے۔ ان کو زد و کوب کیا ہے اور گاڑی کو نقصان بھی پہنچایا ہے۔ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد دونوں رہنماؤں نے قانون کا راستہ اختیار کرکے مقامی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی، اور اس کی کاپی تھانہ کبل میں دینے گئے۔ اس عمل کے بعد اکثر لوگ خود جاکر تھانہ میں عدالتی حکم نامہ پیش کرتے ہیں، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ پولیس اس تاریخ تک ملزمان کو گرفتار نہیں کرسکتی۔ القصہ، تھانہ میں عدالتی حکم نامہ لے جانے کے بعد عبدالغفور کے بیٹے کے مطابق وہ دیر تک باہر نہ نکلے۔ ان کے مطابق جب پولیس سے پوچھا گیا کہ والد اندر ہیں، تو جواب ملا کہ وہ تو تھانہ میں آئے ہی نہیں۔ اگلے روز کبل چوک میں احتجاج ہوا اور لوگوں نے چوک میں دن بھر دھرنا دیا۔ ساتھ یہ الزام لگایا گیا کہ عبدالغفور اور عثمان غنی کو پولیس نے اغوا کیا ہے۔ اس کے بعد اس طرح کا بیان ن لیگ کے صوبائی صدر امیر مقام نے بھی دیا۔ 19 جنوری اتوار کے روز کبل کے تاجروں نے مکمل ہڑتال کی اور دوبارہ کبل چوک میں دھرنا دیا۔ اُسی روز مینگورہ میں بھی ن لیگ نے احتجاج کیا۔ ضلعی صدر قیموس خان نے دیگر رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کی اور الزام لگایا کہ ان کے دونوں ساتھیوں کو پولیس نے لاپتا کیا ہے، اور دھمکی دی کہ اگر ان کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا، تو صوبے بھر میں احتجاج کیا جائے گا۔ اتوار کو کبل بازار کی بندش، کبل چوک میں دن بھر دھرنا، مینگورہ میں احتجاج اور ن لیگی عہدیداروں کی پریس کانفرنس کے بعد ایک صحافی دوست کے ساتھ اس مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی، تو مَیں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ دونوں لیگی رہنما پولیس کے پاس ہیں۔ اب اگر وہ ان کی گرفتاری ظاہر کرتی ہے، تو یہ ایک طرح سے توہین عدالت تصور ہوگا۔ اب دیکھتے ہیں کہ پولیس اعلیٰ سیاست دانوں کے حکم پر کون سا ڈراما رچاتی ہے؟ شام کے وقت ہم احتجاجی پریس کانفرنس، ہڑتال سمیت دیگر خبریں ای میل کر چکے تھے اور دفتر سے جانے ہی والے تھے کہ سوات پولیس کی جانب سے ایک پریس ریلیز ای میل کے ذریعے موصول ہوئی۔ مَیں دوبارہ دفتر میں بیٹھ گیا۔ پریس ریلز پڑھا، تو ہنسی چھوٹی۔ 9 اگست 2019ء کو ن لیگ نے مہنگائی کے خلاف نشاط چوک میں احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ اگر قارئین کو یاد ہو، تو اس مقدمہ میں چند افراد کے نام لکھ کر، دیگر نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس میں ن لیگ کی خاتون رہنما نسیم اختر کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ان کو جیل کی ہوا بھی کھلائی گئی تھی۔ عبدالغفور اور عثمان غنی کو اُس ایف آئی آر کے بعد مَیں نے کئی دفعہ خود مینگورہ میں دیکھا ہے۔ انہوں نے ان پانچ ماہ میں کئی مظاہرے اور پریس کانفرنسز کی ہیں۔ اگر پانچ ماہ پرانی ایف آئی آر میں ’’مثالی پولیس‘‘ ایک خاتون کو اس کے گھر سے گرفتار کر سکتی ہے، تو دو مردوں کو کیوں نہیں پکڑسکتی جو روزانہ مینگورہ آتے جاتے، احتجاج کرتے اور پریس کانفرنس کرتے دیکھے گئے ہیں۔ مَیں عبدالغفور اور عثمان پر ایف آئی آر کے خلاف نہیں ہوں۔ آپ نے ایک محکمہ کی درخواست پر ایف آئی آر درج کی، اب اگر عدالت میں ثابت ہو جائے، تو وہ ان کو سزا سنائے گی۔ اور اگر ایف آئی آر غلط ہے، تو ان کو بری بھی عدالت ہی کرے گی، لیکن سوات پولیس نے جس کے کہنے پر اس طرح کی بچکانہ حرکت کی ہے اور اتوار کو جو ڈراما رچایا ہے، یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔یہ عمل، اغوا اور حبسِ بے جا میں رکھنے کے جرم میں آتا ہے۔ میرا واسطہ پنجاب اور سندھ پولیس سے بھی پڑا ہے۔ ان کے مقابلہ میں خیبر پختون خوان کی پولیس بہت بہتر ہے۔ سوائے ہزارہ ڈویژن کی پولیس کے، جنہوں نے شائد پنجاب پولیس سے رنگ پکڑا ہے۔ سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کی پولیس تو واقعی مثالی تھی۔ خدارا، سوات کی مثالی پولیس کو اغواکار نہ بنایا جائے، ان سے غلط کام نہ لیا جائے۔ ورنہ پھر ’’مثالی پولیس‘‘ کے ڈھول پیٹنے کا پول کھل جائے گا۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔