میرے دوست انور سن رائے کو اس بات پر حیرت ہے کہ گذشتہ چودہ پندرہ سال کے دوران میں کراچی میں جو اصل تبدیلی آئی ہے، وہ میں نے محسوس ہی نہیں کی۔ اگر محسوس کی ہے، تو اس کے بارے میں ابھی تک کیوں کچھ نہیں لکھا۔
’’کیا ہے وہ؟‘‘
حسب عادت اس نے جواب دینے میں خاصا وقت لیا۔ ادھر ادھر لائٹر ڈھونڈا "DUNHIL” کے خوب صورت چوڑے پیکٹ کو اپنے مخصوص "HEROIC” انداز میں کھولا۔ انگلیوں کی فن کارانہ چابک دستی کا مظاہرہ کیا۔ لائٹر سے نکلتے ہوئے شعلے نے جب اس کی انگلیوں میں گرفتار سگریٹ کے پاینچے پکڑ لیے، تو اس نے ایک طویل کش لیا اور دھویں کے مرغولے بہت جلد آخر میرے نتھنوں میں گھس گئے۔
’’جناب وہ ہے پولوشن۔‘‘
شور کی دیواریں ہیں، گرد کی قناتیں ہیں، اور دھویں کی ایک خنجر بدست فوج ہے، جو ناک کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں بھی گھس آتی ہے۔
’’واقعی یہ تو ایک سنگین غلطی ہے!‘‘ مَیں نے اپنی کوتاہی کا کھلے دل سے اعتراف کرلیا اور پھر اپنے دوست کی سادگی اور بھولپن پر ایسے قہقہے لگانے کو جی چاہا، جو بالکل حق بجانب چیخوں کو چپ کرنے کے لیے لگائے جاتے ہوں، لیکن مَیں چپ رہا۔ دوستوں کے ساتھ ہمیشہ سے رعایتی سلوک ہوتا رہا ہے۔ پوری دنیا میں رائج یہی ایک معروف طریقہ ہے۔ اس لیے میرے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ میں خواہ مخواہ اس سے روگردانی کروں۔ یہی سوچ کر مَیں نے اس سے کچھ نہیں کہا، لیکن اب اس کمرے میں دھواں اتنا بھر گیا ہے کہ میں مزید خاموش نہیں رہ سکتا، یا تو یہ ہے کہ میں بزدلوں کی طرح یہاں سے بھاگ جاؤں اور رہنے کے لیے ایسی جگہ ڈھونڈوں جہاں بقول غالبؔ
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
چاہے دوستوں کی دل داری اور نرم گفتاری میسر نہ ہو۔ چاہے سامانِ خور و نوش کی فراوانیاں نہ ہوں۔ شعر و سخن سے محفلیں آباد نہ ہوتی ہوں، چاہے موسیقی کی جاں گداز جادوگری نہ ہو، لیکن سانس لینے کے لیے ضروری آکسیجن حسبِ ضرورت میسر ہو، یا یہ ہے کہ میں لحاظ وحاظ کرنا چھوڑدوں اور چیخ چیخ کر احتجاج کروں۔ اس دھویں کے خلاف بھی، جو کارخانوں کی چمنیوں سے نہیں نکلتا، جس کی ذمے داری پر انے ماڈل کی گاڑیوں پر کسی طرح بھی عائد نہیں ہوتی، یہ وہ دھواں ہے جسے پیسے خرچ کرکے ہم خریدتے ہیں اور پھر بے حد اہتمام کے ساتھ بہت ہی دھڑلے سے اسے اپنے گھروں، دفتروں اور زندگی میں بھرتے رہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے، نازک پھول، پودے، درخت اس زہر سے کس طرح سے اپنی مدافعت کریں گے؟ ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو خوش اور تر و تازہ رکھنے کے لیے ہم زندگی سے گزر جانے کے لیے تیار رہتے ہیں، خود کو قسما قسم خطرات میں ڈال دیتے ہیں، کرپشن کرتے ہیں، رشوتیں لیتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، چور یاں کرتے ہیں، ملک و قوم کو بیچ دیتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات قتل کرنے پر بھی تل جاتے ہیں۔ ان کو ہم اس چیز سے محروم رکھنے میں دن رات لگے ہوتے ہیں جو انگریزی اسکولوں میں پڑھنے، فیشن ایبل کپڑے پہننے، بڑے بڑے گھروں میں رہنے، وٹامن سے بھر پور غذائیں کھانے سے کہیں زیادہ ان کے لیے ضروری ہے۔ وہ ہے ’’صاف ستھری آکسیجن۔‘‘
شہر میں جو شور ہے، گرد ہے، دھواں ہے، اس پر تو یقینا قابو پانا ہمارے بس میں نہیں ہے، لیکن یہ دھواں جسے ہم باقاعدہ خرید کر بہ یک وقت اپنے پھیپھڑوں اور ان کمروں میں بھر رہے ہیں، جہاں صرف ہم نہیں رہتے ہیں بلکہ جسم و جاں سے زیادہ عزیز بچے، بیویاں، ماں باپ اور دوست احباب بھی موجود ہیں۔ جن کے لیے بہ ظاہر ہم نے اپنی زندگیاں داؤ پر رکھ لی ہیں، لیکن در حقیقت ہم جانے انجانے ان کی ایک ایک سانس کو زہر کھلا رہے ہیں۔ کیا ان سے محبت کے سارے دعوے جھوٹے ہیں، کیا دل ہی دل میں ہم ان سے نفرت کرتے ہیں، کیا ہم جان بوجھ کر اپنے پیاروں کو قتل کررہے ہیں؟ آہستہ آہستہ کش پر کش بھرتے ہوئے۔
لگتا ہے میرے قلم کے میز میں بھی یہ زہریلا دھواں بھر گیا ہے، اس لیے میرے دوستوں کے خلاف زہر اگل رہا ہے، لیکن جب مجھے یہاں سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے، تو اس کا تو اور برا حال ہو رہا ہوگا۔ اس لیے اسے معاف ہی کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ آدمی اپنے ان تمام دوستوں کو معاف کردیتا ہے، جو جانے انجانے میں اسے قتل کررہے ہوں۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔