میر امّن دہلوی

فورٹ ولیم کالج میں میر امّن کی رسائی بہادر علی حسینی کی وساطت سے ہوئی۔ فورٹ ولیم کالج چوں کہ انگریزی ملازمین کو اُردو زبان سکھانے کے لیے کھولا گیا تھا اور میر امّن اہلِ زباں تھے، اس لیے یہ قیاس کرنا درست ہے کہ انہیں درس و تدریس کے فرائض بھی سونپے گئے ہوں گے۔ یہ بات اس حقیقت سے بھی واضح ہے کہ دوسرے ادبا کی بہ نسبت میر امّن کی تصنیفات کی تعداد کم ہے۔ میر امّن کی کتاب ’’گنجِ خوبی‘‘ کو کچھ زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی، لیکن ان کی ’’باغ و بہار‘‘ ایک زندہ جاوید کتاب ہے۔ یہ قصہ چہار درویش کا ترجمہ ہے۔
میر امّن سے پہلے محمد عوض زرّیں اور عطا حسین خاں تحسینؔ اور میر امّن کے بعد رجب علی بیگ سرورؔ نے اس کتاب کا ترجمہ مختلف ناموں سے کیا۔ تاہم اسلوب کی سادگی، سلاست اور شائستگی کی بنا پر بقائے دوام صرف ’’باغ و بہار‘‘ کو ملی اور دوسرے تراجم کی تاریخی حیثیت اس لیے برقرار ہے کہ ’’باغ و بہار‘‘ کے اوصاف اُجاگر کرنے کے لیے ان کتابوں کا تذکرہ بھی لازم آتا ہے۔ ’’باغ و بہار‘‘ کی نثر سے میر امّن کی شخصیت کا تخلیقی پرتو اور دلی کے تہذیبی نقوش پوری شان سے منعکس ہوتے ہیں۔ چناں چہ انہوں نے ایک خاص دور کی معاشرتی زندگی کو تابندگی و دوام عطا کردیا۔
میر امّن اُردو کے قصہ گو ہیں جنہیں بقولِ سید وقار عظیم اپنی بقائے دوام کے لیے حسنِ کلام اور شیرینیِ بیان کے علاوہ کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں۔ اس پُرلطف زبان کا ایک اقتباس درجِ ذیل ہے:
’’آگے روم کے مالک میں کوئی شہنشاہ تھا کہ نوشیرواں کی سی عدالت اور حاتم کی سی سخاوت اس کی ذات میں تھی۔ نام اس کا آزاد بخت اور شہر قسطنطنیہ (جس کو استنبول کہتے ہیں) اس کا پایۂ تخت تھا۔ اس کے وقت میں رعیّت آباد، خزانہ معمور، لشکر مرفّہ، غریب غربا آسودہ ایسے سے گزران کرتے اور خوشی سے رہتے کہ ہر ایک کے گھر دن عید اور رات شبِ برات تھی اور جتنے چور چکار، جیب کترے، صبح خیزے، اٹھائی گیرے، دغا باز تھے سب کو نیست و نابود کرکے نام و نشاں ان کا اپنے ملک بھر میں نہ رکھا تھا۔ ساری رات دروازے گھروں کے بند نہ ہوتے اور دکانیں بازار کی کھلی رہتیں۔ راہی، مسافر، جنگل میدان میں سونا اچھالتے چلے جاتے۔ کوئی نہ پوچھتا کہ تمہارے منھ میں کتنے دانت ہیں اور کہا جاتے ہو۔‘‘
اس اقتباس سے صاف نظر آتا ہے کہ میر امّن کی سادہ بیانی در حقیقت خوش بیانی ہے جس کا بیج اس کی تخلیقی فطرت سے پھوٹا ہے۔ تحریک فورٹ ولیم کالج میں میر امّن کی عطا یہ ہے کہ اس نے ترجمے کو طبع زاد کا رتبہ دیا اور اُردو نثر کو بے تکلف ابلاغ کی راہ دکھا دی۔
(ڈاکٹر انور سدید کی کتاب ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘، مطبوعہ ’’انجمنِ ترقیِ اردو پاکستان‘‘، اشاعتِ دہم فروری، 201 8ء، صفحہ نمبر233-34 سے انتخاب)