اکیسویں صدی میں ننگے پاؤں

اگر کوئی اس دور کی مختصر ترین الفاظ میں تصویر کشی کرنا چاہے، تو اس کے لیے اتنا ہی کہنا کافی ہوگا ابلاغ ، مواصلات۔ لا متناہی خلاؤں میں ہر طرف لڑھکتا، تیرتا، مرنے مارنے میں مصروف، ہنسنے گانے میں مشغول ایک چھوٹا سا گاؤں، یہ ہے اب ہماری زمین۔
گزشتہ زمانوں میں یہ بے پناہ وسعتوں کا نام تھا۔ ناپیمودہ بلندیاں، خوف ناک گہرائیاں، انسانی خون کے پیاسے درندوں کی آماج گاہ ایک بہت بڑا جنگل۔
کسی کا گھر سے تنہا نکلنا دراصل خود کو نامعلوم خطرات کے آگے ڈال دینے کے مترادف تھا۔ اس کو ایسی مہم جوئی گردانا جاتا تھا، جس میں صرف ایک چیز کی آسانی تھی۔ اب وقت کتنا بدل گیا ہے کسی ایسے شخص کا ہونا تقریباً ناممکن ہے، جو دور جدید کے نظام مواصلات سے کسی نہ کسی شکل میں دو بدو نہ ہوا ہو اور آج کل کی سریع الحرکت اور انتہائی مؤثر ابلاغی قوت کی زد میں نہ آیا ہو۔
جس طرح کسی شہر میں کسی ایسے آدمی کی موجودگی خاصے اچنبھے کی بات لگتی ہے، جسے سائیکل چلانی نہیں آتی۔ اسی طرح روئے زمین پر کوئی ایسا باشندہ جو اس گاؤں کے گلی کوچوں میں ذرا چکر لگانے کے لیے نہ نکلا ہو۔ دور جدید کے ابلاغی عفریت کے لیے خاصی لذیذ خبر ثابت ہوگی۔
یہ کیسے ممکن ہے ایک طرف مریض کو نظام مواصلات سے باندھنے کی تیاریاں ہیں۔ انٹرنیٹ نے خواب گاہوں کی حرمت کے اس آخری پردہ کو بھی تار تار کردیا ہے۔ جہاں تماش بینوں کی نگاہ تیز سے تھوڑا سا تحفظ حاصل تھا اور دوسری طرف یہاں کا کوئی ایسا باشندہ جو ابھی تک گھر کی دیواروں کے سائے میں محفوظ جھولا جھول رہا ہو، اگر کوئی ہے تو سامنے آئے اور منھ مانگا انعام پائے۔ میں نے سوچا۔ اس کام کے لیے دور کیوں جاؤں۔ اپنے علاقہ میں اس خوش نصیب کو کیوں نہ ڈھونڈوں۔ اکیسویں صدی کی سنہری چھتری کے نیچے آنے کے باوجود ابھی تک یہ ایریا زمانۂ قبل از تاریخ کے مزے لوٹنے میں مصروف ہے۔
بجلی نہیں۔ اس لیے یہاں آسمان پر ستاروں کی اتنی بڑی تعداد سر شام نکل آتی ہے کہ عشاق اور شعراء کے لیے اختر شماری کا کام عام انسانی آبادیوں کے مقابلے میں کئی گناہ بڑھ جاتا ہے۔
ٹیلی فون نہیں۔ ٹیلی ویژن کی مکروہ نشریات سے بھی ابھی تک یہ علاقہ محفوظ ہے اور اکثر و بیش تر جگہوں میں سڑک نام کی کوئی چیز بھی نہیں پائی جاتی۔ اس لیے میں یہ سوچنے میں حق بجانب ہوں کہ اگر ایسے شخص کا کوئی وجود ہے، تو وہ یہیں کہیں ہوگا۔ جسے دور جدید کی ہوا بالکل چھو کر نہ گزری ہو۔
اس خوش نصیب کی تلاش۔ جسے سائنسی ایجادوں اور دریافتوں نے ابھی تک دریافت نہ کیا ہو۔ بہت سے ایسے لوگ ملے جنھیں دیکھ کر یہ گمان گزرا۔ لیکن ذرا سا کریدنے پر یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ کوئی کھڑکی، کوئی دروازہ، کوئی روزن کھلا دکھائی دے جاتا تھا۔ جس سے ہر بار پنجوں کے بل کھڑی ہونے والی امید شرمندہ ہوکر بیٹھ جانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ وہ جو بظاہر زمانۂ قدیم کی یادگار نظر آتا تھا۔ کسی نہ کسی طرح زمانہ جدید کے احساس مندوں میں شامل ہوتا تھا۔ میں اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ شدید سردی میں یخ بستہ زمین پر انتہائی بے فکری سے چلتی ہوئی الف جان نظر آئی۔ وہ حسب عادت منھ ہی منھ میں کچھ بڑ بڑاتی اور مسکراتی جارہی تھی۔ اس کے پاؤں آج بھی ننگے تھے۔ میں جو خاصے قیمتی جوتوں اور گرم جرابوں میں بھی ٹھنڈ کرکے ظالمانہ برتاؤ سے تنگ آتے ہوئے اپنے پیروں کی شکایات سے بے چین تھا۔ اسے دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ میرا چچا زاد بھائی اور بچپن کا کلاس فیلو تاج پور شاہ جو اس وقت میرے قریب ہی کھڑا تھا۔ میری حیرت اور پریشانی سے محظوظ ہوتا ہوا کہنے لگا: ’’زمین پر برف کی چادر بچی ہو، یا دھوپ کی حدت سے پتھر چٹخ رہے ہوں۔ الف جان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ اتنے پر سکون انداز سے ننگے پاؤں چلتی ہے کہ دیکھنے والے شرمندہ ہو جائیں۔ اپنی کم ہمتی اور تن آسانی پر۔‘‘ مزید تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اپنی پچاس سالہ زندگی میں اس نے اپنے پیروں کو جوتے پہننے کی زحمت کبھی نہیں دی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے دل ہیرے کی طرح سخت ہوتے ہیں، جو کبھی نہیں پسیجتے، کبھی نہیں ٹوٹتے اور انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں آنے جانے والے لوگ اکثر و بیش تر ایسے ہی ہوتے ہیں۔
میں سوچنے لگا ایک دل ہی پر کیا موقوف ہے۔ انسان خدائے لم یزل کے دست قدرت کا ایسا کرشمہ ہے کہ وہ اگر چاہے، تو اس پارہ جسم کے کسی بھی حصہ کو اپنے ارادہ کی پختگی سے ہیرے سے بھی زیادہ سخت بنا سکتا ہے۔ چاہے وہ پیروں کی ایک جوڑی ہی کیوں نہ ہو۔ جس پر انقلاب زمانہ کوئی اثر نہ کرسکے۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔