تہاڑ جیل، آج یاسین ملک جہاں پابند سلاسل ہیں۔ وہاں تہِ خاک مقبول بٹ کا جسدِ خاکی بھی آرام فرما رہا ہے کہ شہید مرتے نہیں، امر ہوجاتے ہیں۔
مقبول بٹ کو 36 برس قبل اسی جیل میں رات کی تاریکی میں پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔ پھانسی کا وہی طوق یاسین ملک کے گلے میں ڈالنے کے لیے حکمران بی جے پی آج بے چین ہے۔ 30 برس پرانا ایک مقدمہ ازسر نو چلایا جا رہا ہے۔ منصوبہ ہے کہ ’’تحریک آزادی کے اس سرخیل کی آواز کو بھی خاموش کرادیا جائے، تاکہ کشمیرمیں آزادی اور حریت کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہے۔‘‘
80ء کی دہائی تک تحریکِ آزادی محض ایک سلگتا ہوا جذبہ اور سہانے سپنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ مقبول بٹ کو سولی پر لٹکا کر حکمرانوں نے سمجھا کہ آزادی کی شمع بجھا دی گئی۔ دیوانہ کوئی اب آزادی کا خواب دیکھے گا، نہ ریاست کے سامراجی اقدامات کے راستے کی رکاوٹ بنے گا۔ کون جانتا تھا کہ
خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
مقبول بٹ مزاحمت، جرأت اور قربانی کا استعارہ بن گئے۔ ان کی جدوجہد گھر گھر کی کہانی بن گئی۔ انہوں نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔ عالم یہ ہے کہ سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود وہ تمام کشمیریوں کے ہیرو قرار پائے۔ یاسین ملک ان ہی کے پیروکار ہیں۔ ان ہی کے راستے پر گامزن۔ انہی کے جسدِ خاکی کے پہلو میں ایک ’’ڈیتھ سیل‘‘ میں آزادی کا سورج طلوع ہونے کے منتظر۔
یاسین ملک نے جس راہ کا انتخاب کیا، وہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں بھری راہ ہے۔ اس طالب علم کو ان کے ساتھ رہنے، گفتگو کرنے اور بہت سارا وقت گزارنے کا بار بار موقع ملا۔ میں نے انہیں ایک زیرک سیاست دان، بہت ہی دانشمند اور مدبر شخصیت پایا۔ اوائلِ عمری میں مزاحمتی سرگرمیوں میں شریک ہوئے۔ چناں چہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے، لیکن انہوں نے کتابوں اور بحث ومباحثہ کے ساتھ گہرا رشتہ استوار کیا۔ سیکھنے، سمجھنے اور اپنے فہم میں اضافے کے لیے ہر دم مستعد اور سرگرم رہے۔ جیل کے ماہ و سال انہوں نے مطالعہ میں گزارے۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں کتابیں چاٹ ڈالیں۔ یادداشت کمال کی پائی۔ شاعری ہو یا تاریخی واقعات اس طرح بیان کرتے جیسے کہ ان پر اُتر رہے ہوں۔
قارئین، لگ بھگ 28 برس تحریکِ آزادی کے مد و جز کا مشاہدہ کرتے بیت گئے، لیکن یاسین ملک ان چند رہنماؤں میں سے ایک ہیں، جنہیں ہر روز یاد کرتا ہوں۔ ان کی سلامتی اور صحت کی دعا کرتاہوں۔ انہیں جیل کی کال کوٹھری میں ٹرپتا اور مرتا نہیں دیکھ سکتا۔ وہ کشمیریوں کا ذہین ترین دماغ ہیں۔ ماضی میں وہ اٹکے ہوئے نہیں بلکہ مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیاسی تحریک کو منظم کرنے، بکھروں اور ناراض لیڈروں اور کارکنوں کو ایک صفحے پر لانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ بھارت کے انسانی حقوق کے علمبرداروں، بائیں بازو کے دانشوروں اور صحافیوں کے ساتھ یاسین ملک نے قریبی روابط پیدا کیے۔ ان کے توسط سے بھارت کے دانشور طبقے کو کشمیریوں کے مؤقف سے روشناس کرایا۔ بھارت کے طول و عرض میں انہوں نے ہونے والے بحث ومباحثوں میں حصہ لیا۔ بھارتی سیاست دانوں اور حکمرانوں کے ساتھ بھی انہوں نے مذاکرات کیے۔ افسوس! مکالمے کی کوششیں رنگ نہ لاسکیں اور ان کا عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا۔ پانچ اگست کے بھارتی اقدام نے تاریخ کا پہیہ الٹا گھما دیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے حالیہ اقدامات اور منصوبہ بندی دیکھ کر اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ وہ کشمیریوں کی شناخت چھیننے کے بعد بھی نچلا بیٹھنے والی نہیں۔ آبادی کا تناسب بگاڑنے کاعمل شروع ہوچکا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کی شہریت منسوخی کا قانون پاس کیا جاچکا ہے۔ سرجیکل اسڑائیک کا شوشا نہیں بلکہ دہلی سے آنے والی اطلاعات کے مطابق مودی حکومت کسی بھی وقت آزادکشمیر پر حملہ کرسکتی ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ کہتے ہیں کہ وہ آزادکشمیر کا انتظامی کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کی تلوار بھی سرپر لٹک رہی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہ داری کو روکنے کے منصوبے بھی جاری ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں اقتصادی پابندیاں لگوانے کی کوششیں اگرچہ بار آور نہیں ہوئیں، لیکن رُکی بھی نہیں۔ باخبر حلقوں کا تجزیہ ہے کہ چونکہ بھارت کی معیشت گراوٹ کا شکار ہے۔ مودی کی کرشماتی شخصیت کا سحر ٹوٹ چکا ہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران میں ریاستی الیکشن کے نتائج بھی مایوس کن نکلے۔ کشمیر کی وحدت کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کر دیا گیا، لیکن حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوگئے اور یہ عالمی ایشو بھی بن گیا۔
ایک طرف یہ منظر نامہ ہے، تو دوسری طرف یارانِ نکتہ داں کہتے ہیں کہ کشمیر پر سودا ہوچکا ہے۔ سوچتا کوئی نہیں کہ اس طرح کے بیانات کشمیریوں کی نفسیات اور مورال پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں؟ حوصلہ دینے اور ہمت بندھانے کے بجائے سیاسی زعما اور دانشور کہتے ہیں کہ فیصلہ نہیں سودا ہوچکا ہے۔ کشمیریوں کی رضامندی کے بغیر 70 برس قبل جو فیصلہ ہوا آج تک بھارت اس پر عمل درآمد نہیں کراسکا، آج تو کشمیری جاگ رہا ہے۔ حکومت چاہے بھی تو تحریکِ آزادی کو کمزور نہیں کرسکتی۔ حکومتیں سستی اور غفلت کا شکار ہوسکتی ہیں، لیکن سودے بازی کا کوئی تصور ممکن نہیں۔
کشمیر کی مزاحمتی تحریک مسلسل عالمی توجہ کا مرکز بنتی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں آباد لاکھوں کشمیری اس تحریک کا حصہ بن چکے ہیں۔ یاسین ملک اس جدوجہد کی ایک توانا آواز اور مضبوط علامت ہیں۔ وہ مکالمے، مذاکرات، پُرامن طریقوں سے تنازعہ کے حل اور مفاہمت کی سیاست کے علمبردار ہیں۔ جسٹس مجید ملک نے بالکل درست تجویز کیا کہ حکومتِ پاکستان کو ان کو بچانے کے لیے بھرپور آواز اٹھانی چاہیے۔ جیل کی کال کوٹھڑی سے انہیں نکالنے کی مہم ہر سطح پر چلائی جانی چاہیے۔
(نوٹ:۔ یہ کالم اتوار کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے زیرِاہتمام یاسین ملک کی اسیری کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں کی گئی گفتگو پر مبنی ہے۔)
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔