جب ہم اپنا موازنہ دوسرے ممالک سے کرتے ہیں، تو ہمیں تمام تر تقاضوں کو ملحوظ خاطر بھی رکھنا پڑے گا۔ اول تو ہمارا موازنہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم اس خطے کا وہ عجوبہ ہیں جو ہیں تو ایٹمی قوت، مگر اٹھنے بیٹھنے کے ڈھنگ ابھی سیکھ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک ریڑھی بان کو اپنے بنیادی حقوق، مسائل اور ان کے حل کا اتنا ادراک نہیں جتنا سول ملٹری معاملات، سیاسی داؤپیچ اور عالمی منظر نامے پے عبور حاصل ہے۔ ہم جب عالمی رشتوں کی جوڑ توڑ کرنے بیٹھیں، تو تاریخ کی روشنی میں اسلامی ممالک کے اتحاد کے فضائل سے لے کر امریکی دفاعی و خارجی پالیسیوں کو بھی رگڑ جائیں، مگرعلم نہیں تو صرف ان تنگیوں اور مشکلات اور ان کی وجوہات کا جو ٹیکس دیتے ہوئے بھی ہمارے معمول کا باقاعدہ حصہ ہیں، جو کہ کم از کم مستقبل قریب میں تو حل ہوتی نظر نہیں آتیں۔
چند دن قبل ایک دوست یورپی ممالک کے نظام کی مثال پیش کررہا تھا کہ وہ جمہوریت کا بہترین عملی نمونہ کیسے ہیں؟ آج ایک استاد نے اس کا بہترین جواب کچھ یوں دیا کہ ستر کی دہائی میں جب تمام دنیا دو معیشتی بیانیوں میں منجمد تھی، تب کی یورپی افراتفری اور اتار چڑھاؤ کی تاریخ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے،مگر پھر ان ممالک نے وقت سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے وجود کو قائم رکھنے کے بنیادی گُر سیکھ لئے۔ ہم اپنا تجزیہ کریں، تو اس وقت ہم نے اپنے اندرونی اختلافات کو بڑھاوا دیا اور خارجی و ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان جنگ میں کود پڑ ے۔ یہ پہلی بار نہیں تھا۔ ہم خارجی طور پر ویسے بھی بہت قسم کی ایکسایٹمنٹ کا شکار رہتے رہے ہیں۔
موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ یورپی ممالک نے بنیادی جمہوریت کا درس چاہے ایک یا دو استادوں سے لیا ہو، مگر اس کی نافذصورت ہر ملک کے اپنے طریقے سے ہے۔ مثال کے طور پر جاپان اگر جمہوریت سے متاثر ہوا، تو اس نے معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے نہیں بلکہ ملک کو بہتر طور پر آگے بڑھانے کے لئے اس نظام کا نفاذ اپنے حالات اور اپنی ترجیحات کے مطابق ہی کیا۔ ہمارا کیس ذرا مختلف ہے۔ پہلی غلطی ہی 1935ء کے انڈیا ایکٹ کو ایک آزاد ملک میں نافذ کرکے کی گئی جو کہ نوآبادیاتی دور میں کالونی کوکنٹرول کرنے کے لئے غلام ہندوستان پر مسلط کیا گیا تھا۔چلیں، وہ تو بیت چکی، پرانی بات ہوگئی۔ کیا اب کے آئینی ڈھانچے میں اس بات کی کمی عیاں نہیں ہے کہ اس کو ہمارے تقاضوں کے مزید مطابق ڈھلنا چاہئے؟ اصلاح کا یہ عمل کوئی ایسا کام تھوڑی ہے کہ جس سے عام آدمی کی زندگی کو کسی قسم کا نقصان پہنچے بلکہ عالمی جمہوری ماڈلز ہمیں اتنے کامیاب اسی لئے نظر آتے ہیں کہ ان میں عام قدروں کا خیال رکھتے ہوئے ان کو اپنی شکل میں ڈھالا جاتا ہے، جبکہ یہاں ان عام قدروں کو سیاسی مقاصد کے پیچھے چھپا دیا جاتا ہے۔
ہم نظام کی اصلاحات کو آج تک دوسری چیزوں میں الجھا کر نظرانداز کرتے آئے ہیں۔ نظام میں اصل بنیادی اصلاحات جن کا ہونا ہی مسائل کے خاتمے کی شرط ہے، وہ ان مقبول بحثوں میں اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ جب سے ملک وجود میں آیا ہے، ہمیں مختلف سیاسی بیانیوں میں الجھا کر اصل مسائل سے بہت دور کردیا گیا ہے۔ اب بھلا ایک ریڑھی والے سبزی فروش کو وزیراعظم کے استعفے سے کیا ملا کہ اس کو مستقبل میں بھی اسی وزیراعظم کی اہلیہ اس کے نمائندہ ایوان میں آتی نظر آرہی ہے۔ ایک مزدور مستری کو معزول جج کی بحالی سے کیا ملا جب کہ انصاف کے ایوانوں میں آج بھی کرائے کا آدمی جھوٹی گواہی دے کر اپنا کرایہ وصول کررہا ہے اور غریب آج ستّر سال بعد بھی اس بات کا مطالبہ کررہا ہے کہ نظام میں صحیح طور اصطلاحات ہوں، تاکہ جس کے پاس کرائے کا انصاف خریدنے کی سکت نہیں ہے، اس کو بھی معیاری انصاف فوری ملے۔
مگر آج وہی باتیں ہمارے ہاں مقبول ہیں جو ہمیں دکھائی، پڑھائی اور سکھائی گئی ہیں جن کا ہمارے بھلے سے دور کا کوئی تعلق نہیں۔ بُرا نہ منائیں، تو ایک سچ گوش گزار کر دوں؟ جس کرپشن کے ختم ہونے کی نوید یوم تشکر کی شب سنائی گئی، وہ کرپٹ بوسیدہ نظام تو اصل جمہوری نظام کاروپ دھارے آج بھی ہمارے سامنے ویسے کا ویسا ہی کھڑا ہے۔ کل ہی کی بات ہے، چیئرمین نیب نے ایک بار پھر شریف خاندان کے خلاف کسی بھی ریفرنس کے تحت کارروائی کرنے سے انکار کردیا ہے۔یہ وہی چیئرمین نیب ہیں جنہوں نے اس سے پہلے بھی عدالت کے سامنے اپنے بندھے ہوئے ہاتھ ظاہر کئے تھے، مگر ہمارے کسی بھی حلقے سے یہ آواز سنائی نہیں دی کہ چیئرمین کو کسی طور برطرف کرکے ادارے کو ایگزیکٹو کے اثر سے نکالنے کی بروقت کوششیں کی جائیں۔
ہم دو انتہاؤں پر کھڑے بیانیوں کو، ایک وہ جو وزیراعظم کے برطرف ہونے کو جمہوریت کا ڈی ریل ہونا کہہ رہے ہیں اور دوسری انتہا پر کھڑے بیانیے جو کہ باسٹھ اور تریسٹھ کی آڑ میں تمام تر اسمبلی کے خاتمے اور راتوں رات انقلاب کے ذریعے سے معاملات کو صحیح کرنے پر پختہ یقین رکھتے ہیں، کو وقت تو دے رہے ہیں مگر ہم اصلاحات کے مُدے پر بات کرنے والوں کو وقت نہیں دے رہے۔ وقت دیں بھی کیسے؟ اس طرح کی کوششیں کرنے والے رہے ہی کہاں ہیں؟
دانشوری اور فکری تخت پر ہم نے اپنے میڈیا کو بٹھا دیا ہے، یہ شرف پہلے وقتوں میں جامعات کو حاصل تھا، آج بھی دنیا بھر کی مقبول جامعات بنیادی حقوق اور مسائل کے حل کے لئے دنیا بھر کے ماڈلز کے تجزیات پیش کرتی ہیں، تجاویز پیش کرتی ہیں، جن کو وہاں کا ایڈمنسٹریٹو ڈھانچہ اس لئے اہمیت دیتا ہے کہ معاشرے کی بہتری میں جامعات کو وہاں ایک مقام حاصل ہے۔ ہمیں یہ مقام دوبارہ سے جامعات کو دینا ہوگا اور معاشرے میں اس آواز کو پیدا کرنا ہوگا۔ اس آواز کی جان بخشنی ہوگی جو خود کہے کہ ’’ہاں مجھے بدلو!‘‘ اگر بُرے نظام کو بتدریج چلنے دیں گے، تو وہ ایک اچھا نظام نہیں بن جائے گا بلکہ بُرے نظام کی بہتر صورت بنتی چلی جائے گی۔