72 سالہ زوال کی کہانی

ہندوستان ہم سے ایک دن بعد 15 اگست 1947ء کو آزاد ہوا۔ لیکن چوں کہ قیادت بالغ نظر اور اپنے ملک و عوام کے ساتھ مخلص تھی۔ اس وجہ سے ایک سال کے عرصے میں متفقہ آئین تشکیل دیا اور ایک ایسے ملک کو جس میں سیکڑوں مذاہب، ہزاروں زبانیں بولنے والے مختلف جغرافیائی خطوں اور مختلف علاقائی تہذیبی و ثقافتی پس منظر رکھنے والے لوگ ہیں، کو آج تک متحد رکھا۔ دستور کے تحت سویلین بالادستی برقرار رکھی اور اس دوران میں کئی بحرانوں کے باوجود فوج کو نہ مداخلت کا حوصلہ ہوا، اور نہ سول سیٹ اَپ کے علی الرغم بالادستی قائم کرنے کی جرأ ت ہوئی۔ ایسا وقت بھی آیا کہ تحریکِ آزادیِ ہند کے ہیرو پنڈت جواہر لعل نہرو کا انتقال ہوا اور قیادت کا ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا، لیکن چوں کہ دستور موجود تھا۔ اس پر عمل درآمد ہو رہا تھا جس کے تحت انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے ایسے سینئر رہنما کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کیا جس کی کتابِ زندگی میں پارٹی وفاداری اور آزادی کی تحریک میں جدوجہد کے علاوہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھی۔ یہ تھے پنڈت لعل بہادر شاستری جو جسمانی لحاظ سے کمزور اور شخصیت کے لحاظ سے ناقابلِ توجہ اور کوئی کشش نہیں رکھتے تھے۔ اس دوران میں پارٹی کے صدر ایک ایسا شخص تھا جو ٹیکسی ڈرائیور اور نچلے طبقے کا ایک سیاسی کا مراج تھا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہندو اور انڈین نیشنلٹی کا جذبہ اتنا مؤثر تھا کہ پنڈت جواہر لعل نہرو جیسی شخصیت جو ہندوستان کی آزادی کے صف اول میں تھا، جس نے قید و بند کی تکلیفیں برداشت کی تھیں، جس نے اپنی ساری جائیداد ملک و قوم کے لیے وقف کی تھی۔ اس نے آزادی کے بعد اپنے لیے کسی خصوصی اعزاز، اختیار اور امتیاز کا مطالبہ نہیں کیا۔ نہ آمر اور ڈکٹیٹر بننے کی کوشش کی، بلکہ جمہوری انداز میں قوم کو ایک ایسا متفقہ آئین دیا،جس کے تحت آج 72 سال بعد بھی ہندوستان متحد ہے۔ حالاں کہ بہت سارے علاقوں میں حقِ خوداختیاری اور آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ مسلح افواج، سول انتظامیہ کے تحت ان علاقوں میں ملکی سالمیت اور تحفظ کے لیے کارروائیاں کر رہی ہیں، لیکن ہم جو اُن سے ایک دن پہلے چودہ اگست کو آزاد ہوئے جب ان سے اپنا موازانہ کرتے ہیں۔ حالاں کہ دین و مذہب کے لحاظ سے ہمارا ان کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ ہم اللہ کے فضل سے ایک اللہ، ایک رسولؐ اور ایک کتاب قرآ ن اور اللہ کے سامنے یومِ قیامت حاضری اور حساب کتاب پر یقین رکھنے والی مسلم ملت ہیں۔ ان کے پاس اوہام و خرافات اور رسوم و رواج پر مشتمل طریقوں کے سوا نہ کوئی دین ہے اور نہ کوئی ضابطۂ حیات، لیکن ہماری بد قسمتی کا آغاز اس دن سے شروع ہوتا ہے کہ جب ہمارے ایک ہی مخلص، ملک و عوام کے ساتھ وفادار ، ذاتی غرض و حرص سے پاک جمہوری ذہن و فکر رکھنے والی شخصیت قائد اعظم محمد علی جناح ہم سے رخصت ہوگئے، تو
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
اور قائد اعظم کی رحلت کے بعد میدان ان کھوٹے سکوں کے لیے خالی ہو گیا، جنہیں قائد نے خود اپنی زندگی میں کھوٹے سکے قرار دیا تھا۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ابھی فضا میں ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ پہلی دستور ساز اسمبلی میں ایک اقلیتی ممبر نے مولانا مودودیؒ کا ایک کتابچہ ’’اسلامی ریاست کس طرح قائم ہوتی ہے؟‘‘ لہراتے ہوئے سوال کیا کہ جب پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہوگی، تو ہمارا کیا ہوگا اور ہماری کیا حیثیت ہوگی؟ تو اس کے جواب میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے فرمایا کہ معزز ممبر کو معلوم ہے کہ اس پمفلٹ کے مصنف اس وقت کہاں ہیں؟ میں ان کی معلومات کے لیے یہ وضاحت کرتا ہوں کہ اس کتابچے کے مصنف اس وقت جیل میں ہیں۔ لہٰذا معزز ممبر خاطر جمع رکھیں۔ ایسی کوئی صورت حال پیش نہیں آئے گی، جس میں اقلیتوں کے لیے کوئی بد مزگی کا سامان موجو د ہو۔
حالاں کہ اگر لیاقت علی خان کو قائد اعظم کی مختلف اوقات میں کی گئی واضح تصریحات یاد ہوتیں کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہوگا، جس میں قرآن و سنت کے احکامات لاگو ہوں گے اور ہم اہلِ ملک کی اکثریت کے دین، ایمان اور عقیدے کے مطابق یہاں اسلامی معاشرہ تشکیل دیں گے، تو موصوف معزز اقلتی ممبر کو یہ جواب بھی دے سکتے تھے کہ اسلامی حکومت میں تمام اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہوگا اور ملک کے تمام باشندوں کی طرح ان کو بھی جان و مال عزت و آبرو اور اپنے اپنے عقیدے اور نظریے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوگا۔
ایک طرف تو تحریکِ پاکستان کے دوران مسلم عوام کے ساتھ کیے گئے اسلامی حکومت کے قیام کے تمام وعدے پس پشت ڈال دیے گئے۔ دوسری طر ف ایسی کوششیں اور اقدامات شروع کی گئیں کہ مسلم ملت کو اسلام کے نظریۂ حیات اور اپنی دینی روایات سے پھیر کر آزادی ، بے پردگی اور فحاشی و عریانیت کی طاغوتی تہذیب و ثقافت کے حوالے کیا جائے۔
اس ضمن میں بیگم رعنا لیاقت علی خان کی کوششوں، جدو جہد اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذکر کے بغیر پوری بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اس خاتون جو ہندو مذہب کو تبدیل کرکے ایک مسلمان کی حیثیت سے مسلم لیگ کے ایک سرکردہ لیڈر لیاقت علی خان کے عقد میں آئی تھی۔ اس نے پاکستان بننے کے بعد ’’آل پاکستان وومن ایسوسی ایشن‘‘ (اپوا) کی تنظیم قائم کرکے مسلمان خواتین کو پردہ اور حجاب چھوڑ کر مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے میدان میں حصہ لینے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی اور یہ مؤثر پروپیگنڈا کیا کہ کس طرح پردے اور حجاب نے تم کو سکھ اور ہندو بلوائیوں کے لیے آسان شکار بنادیا۔ لہٰذا پردہ اور حجاب چھوڑ کر اور مردوں کی بالادستی سے انکار کرکے آزادی و خود مختاری کی آزاد فضاؤں میں اُڑان بھرو۔ یہ تھی وہ ابتدا جو اسلامیانِ پاکستان کو ایک اسلامی معاشرہ فراہم کرنے کے وعدے سے شروع ہوئی۔
لیاقت علی خان کی ناگہانی شہادت کے بعد تو صورتِ حال اور بھی ابتر ہوئی اور اقتدار و اختیار پر تکونی مثلث، جاگیر داروں، سول بیوروکریسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے باقاعدہ قبضہ کیا اور جن کا تحریک پاکستان میں ذرہ برابر بھی کوئی کردار نہیں تھا، وہی لوگ سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ مناصب انہیں مل گئے جو شریکِ سفر بھی نہ تھے۔ پھرجو ان تین طاقتوں یا طبقات میں اقتدار کی جنگ زرگری شروع ہوئی، تو پھر کہاں کا آئین اور کہاں کا دستور۔ سات سال کے طویل عرصے بعد 1954ء کا دستور لکھا گیا، لیکن یہ نو مولود پیدائش کے ساتھ ہی جان بحق ہوا۔ اس کے دو سال بعد 1956ء کا دستور بنا اور اس میں یہ طے کیا گیا کہ دو سال بعد اس آئین کے تحت عام انتخابات ہوں گے۔ وطن کے ہر بالغ شہری کو اپنی آزادانہ رائے سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق حاصل ہو جائے گا۔
لیکن اس دوران میں اقتدار کے تینوں شریک حصہ داروں میں غالب قوت نے اچانک چھلانگ لگا کر اقتدار کی کرسی پر بلاشرکتِ غیرے قبضہ کیا۔ 1958ء کو کمانڈر انچیف ایوب خان نے ملک میں مارشل لا لگا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ 1956ء کا دستور کاغذ کے اوراق میں لکھا کا لکھا رہ گیا اور ملک میں مارشل لا کا توتی بولنے لگا۔ سیاست کے پرانے کھلاڑیوں پر ’’ایبڈو‘‘ کی پابندی لگا کر سیاست سے نکال باہر کیا گیا۔ 1962ء کا دستور بنا یا گیا، جس میں پہلے تو ملک کے نام سے اسلامی کا نام ہی ختم کر دیا گیا اور صرف ڈیموکریٹک پاکستان باقی رکھا گیا، لیکن جب احتجاج کیا گیا اور فوجی حکمرانوں نے سمجھ لیا کہ یہ ہڈی کہیں گلے میں پھنس کر نہ رہ جائے، تو بدرجۂ مجبوری دوبارہ اسلام کا لاحقہ لگایا گیا۔ اس سے قبل ابتدائی دس گیارہ سال افراتفری، آئے روز سازشوں کے ذریعے حکمرانوں کی تبدیلی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی نذر ہوگئے۔
اب جو نیا مارشل لائی دور شروع ہوا، تو ایک طرح کا استحکام نظر آنے لگا۔ 1962کے دستور میں بالغ حقِ رائے دہی منسوخ کرکے 80 ہزار بی ڈی ممبران کو صدر منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا, یعنی حقِ رائے دہی محدود کر دیا گیا۔ اس دور میں بلاشبہ ملک میں سیاسی استحکام آیا اور صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔ منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم اس دوران میں تعمیر ہوئے، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فروغ ملا اور دیگر بنیادی صنعتوں کا ڈھانچا تیار ہوا، لیکن ان اقدامات کے جو منفی نتائج سامنے آئے۔ وہ یہ کہ ملکی دولت چند گھرانوں میں سمٹ گئی۔ ایوب خان، فاطمہ جناح صدارتی انتخابی مقابلے کے دوران میں یہ بات بہت زیادہ اجاگر ہوئی۔ خصوصاً حبیب جالب کی یہ مشہور نظم پورے انتخابی
معرکے پر چھائی رہی
بیس گھرانے ہیں آباد
اور کروڑوں ہیں ناشاد
صدر ایوب زندہ بادـ
اس دوران میں سیاسی حمایت کے حصول کے لیے صنعتی لائسنس اور روٹ پرمٹ کی رشوت کو عام کیا گیا۔ کراچی، فیصل آباد اور دیگر شہروں کے چند گھرانے راتوں رات امیر ترین بن گئے اور مزدور کی یومیہ اجرت تین ساڑھے تین اور زیادہ سے زیادہ چار روپے ادا کی جاتی تھی۔ ان بڑے صنعتی شہروں میں مزدور ہر قسم کی بنیادی ضروریات سے محروم جانوروں کی طرح چھوٹے چھوٹے کمروں میں رہائش پذیر ہوتے تھے۔ صدر صاحب کے صاحبزادگان اور دیگر رشتہ داروں نے اس بہتی گنگا میں خوب جی بھر کر اشنان کیا۔ ایک صاحبزادے اور ان کے سسر تو بڑے صنعت کار بن گئے۔ سیاسی اور انتظامی بندوبست ایسا تشکیل دیا گیا کہ وفاقی دارالحکومت کراچی سے تبدیل کرکے اسلام آباد مقرر کیا گیا اور مرکز کو تمام اختیارات کا مرکز و منبع بنایا گیا۔ ایک قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیاں 62ء کے دستور کے مطابق 80 ہزار ممبران کے ذریعے منتخب کی گئیں۔ مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان ایک صوبہ اور مشرقی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش دوسرا صوبہ قرار دیا گیا۔ مغربی پاکستان میں نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان اپنی ذاتی وجاہت، طرے دار پگڑی اور بڑی بڑی مونچھوں کے ساتھ خوف و دہشت کے علامت تھے۔ مشرقی پاکستان میں عبدالمنعم خان ایوب خان کے جی حضوری اور خوشامد کے ذریعے تمام اختیارات کے حامل گورنر تھے۔ ملک میں ڈکٹیٹر شپ اور آمریت کے مہیب سائے چھائے ہوئے تھے۔ ایک ہو کا عالم تھا۔ پریس آرڈیننس کے ذریعے اس وقت کے پورے پریس یعنی اخبارات کو صرف حکومتی اعلانات اور وزرا کی تقریریں چھاپنے کی آزادی تھی۔ حزبِ مخالف کا مکمل بائیکاٹ تھا، لیکن جب 10 سالہ عشرہ ترقی منانے کا وقت آیا، تو قدرت کے انتقام اور مکافاتِ عمل کا کوڑا ایک دم برسنے لگا۔ وہ خوف و دہشت کی علامت بڑی شملے والی پگڑی اور بڑی بڑی مونچھوں والا رعب دار شخص اپنے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا۔ وہ وجیہہ خوبصورت اور دراز قد فیلڈ مارشل ایوب خان بیمار ہوا اور دوسری طرف ملک بھر میں اس کی آمریت کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اندرونی طور پر یحییٰ خان نے دباؤ ڈال کر مارشل لا لگانے پر اصرار شروع کیا۔ ایوب خان نے حزب اختلاف کے مطالبات سے مجبور ہو کر پوری قومی قیادت کی گول میز کانفرنس بلائی۔ جس میں بالغ رائے دہی ، پارلیمانی نظام اور آزادانہ انتخابات کے مطالبے تسلیم کیے گئے۔ لیکن بجائے اس کے کہ ایوب خان اپنی قومی اسمبلی کے بنگالی اسپیکر عبدالجبار خان کو اقتدار سونپتے۔ ملک میں یحییٰ خانی مارشل لا کا آغاز ہوا اور یحییٰ خان کے ڈھائی سالہ دور مارشل لا میں جو کچھ ہوا، اس کی تفصیلات ملک کے ہر چھوٹے بڑے کو معلوم ہیں۔
آخرِکار اس 22 سالہ دورِ حکمرانی کے نتیجے میں ملک تقسیم ہو کر بڑاصوبہ بنگلہ دیش بن گیا۔ 80 ہزار فوجی اور سویلین بھارت کی قید میں چلے گئے اور پھر ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا ’’نیا پاکستان‘‘ وجود میں آیا، جس میں آج کل ہم عمرانی حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔