پشاور کا ’’بالاحصار‘‘ پختونخوا کے مرکز پشاور میں ایک مشہور تاریخی قلعہ ہے۔ اس قلعہ کی تعمیر کے حوالہ سے مختلف روایات ہیں۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ قلعہ ساتویں صدی عیسوی میں بھی وجود رکھتا تھا۔ جب چینی زائر ’’ہیون سانگ‘‘ افغانستان کے راستے چھے سو تیس عیسوی کو پشاور گئے تھے، تو انہوں نے وہاں ایک تاریخی قلعہ دیکھا تھا۔ گمانِ اغلب یہی ہے کہ مذکورہ قلعہ یہی ’’بالاحصار‘‘ ہے۔ دوسری روایت کے طور پر مؤرخین مانتے ہیں کہ یہ قلعہ کوئی ہزار سال پہلے اس وقت بھی موجود تھا جب سلطان محمود غزنوی نے ہند کے مشہور راجا ’’جے پال‘‘ کو شکست دی تھی۔
تیسری روایت کچھ یوں ہے کہ بالا حصار کو ہندوستان کے مغل حکمران ظہیرالدین بابر نے 1519ء اور 1524ء کے درمیان تعمیر کیا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب بابر نے پنجاب پر دست تصرف دراز نہیں کیا تھا اور ہند میں لودھی پختونوں کی حکومت ابھی باقی تھی۔
میرے اندازے کے مطابق پشاور کا تاریخی قلعہ ’’بالا حصار‘‘ بہت پرانا ہے۔ لگتا ہے کہ بابر نے اس میں ترمیم کی ہوگی اور اسے دوبارہ تعمیر کیا ہوگا۔ بابر نے خود اپنی تاریخ ’’تزکِ بابری‘‘ میں بالا حصار کا ذکر کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بابر نے بالا حصار میں نیا تعمیراتی کام کیا تھا۔ بعد میں یہ افغانی قبائل کے ہاتھوں اس لئے مسمار ہوا کہ ان کو فکر لاحق تھی کہ یہ باہر سے حملہ آور ہونے والوں کے لئے فوجی اہمیت کی حامل جگہ ہے۔ نیز ان کا خیال تھا کہ ہر حملہ آور اسی قلعہ کا سہارا لے کر پختونوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتا ہے۔
ظہیر الدین بابر کی موت کے بعد سنہ 1531ء کو جب اس کا بیٹا نصیر الدین محمد ہمایوں ہندوستان کا دوسرا مغل حکمران مقرر ہوا، تو اس نے بالاحصار کو نئے سرے سے تعمیر کیا اور سکندر خان ازبک کو اس مشہور قلعہ کی رکھوالی کی ذمہ داری سونپ دی۔ لیکن قلعہ کی تعمیر ابھی جاری تھیکہ دلہ زاک پختونوں نے اس پر ہلہ بول دیا۔ اس موقعہ پر سکندر خان ازبک بے جگری سے لڑا اور دلہ زاک پختونوں کا حملہ پسپا کر دیا۔
ہمایوں کے بعد جب اس کا بیٹا جلال الدین محمد اکبر ہندوستان کا حکمران بنا، تو اس وقت بالاحصار میں آگ لگ گئی۔ قلعہ کے اندر تجارتی سامان اور ڈیپوؤں کو بھی آگ لگ گئی۔
قلعہ بالا حصار 1079ہجری(بمطابق 1668ء) تک مغل حکمرانوں کے قبضہ میں تھا اور ان کا ایک فوجی عہدیدار دیگر فوجی اہلکاروں کے ساتھ قلعہ کی رکھوالی پر مامور تھا۔
جب مغل حکمران اورنگزیب کے دور حکومت میں پختون، مغلوں کے ظلم و جبر کے خلاف مصروف جہد تھے، تو پختونوں کے مجاہد ایمل خان مومند نے بھی پشاور کے قلعہ بالا حصار پر حملہ کیا اور اسے مغلوں سے واگزار کرایا۔ بعد میں مغل، ایمل خان مومند کی فوج سے بالا حصارواپس لینے میں کامیاب ہوئے۔ 1738ء اور 1739ء کے درمیان نادرشاہ افشار کو اس وقت بالاحصار ہاتھ آیا، جب اس نے ہندوستان پر ہلہ بول دیا۔ نادر شاہ کی موت کے بعد قلعہ بالاحصار درانیوں کے ہاتھ آیا۔ بعد میں جب احمد شاہ بابا حکمران ہوئے، تو دیگر امور نمٹانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے نہ صرف قلعہ کی مرمت کی بلکہ اس میں نئی تعمیرات بھی کیں۔بعد میں پشاور درانی حکمرانوں کا سرمائی دارالخلافہ رہا۔
واضح کرتا چلوں کہ بالا حصار فارسی اور عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ بالا کے معنی اونچا اور حصار کے معنی قلعہ کے ہیں، یعنی اونچا قلعہ۔
جب سکھوں نے 1833ء کو پشاور پر حملہ کیا اور قلعہ قبضہ کیا، تو اس کا نام سمیر گڑھ رکھ دیا۔ لیکن یہ نام لوگوں میں مشہور نہ ہوسکا۔ پشاور پر سکھوں کے عروج کے وقت سردار ہری سنگھ نلوہ اور سردار کھڑک سنگھ نے بالا حصار کو آباد رکھنے کی خاطر کافی کوششیں کیں۔ رنجیت سنگھ نے بھی اپنے دور حکومت میں بالا حصار کو آباد رکھنے کی خاطر کافی دوڑ دھوپ کی اور شیر سنگھ کو یہ ذمہ داری سونپی کہقلعہ کی تعمیر پر اپنی بھرپور توجہ دے۔ یہ اس لئے کہ بالا حصار ان کے لئے فوجی اہمیت کی حامل جگہ تھی۔ انگریز کے دور حکومت میں 1947ء تک بالا حصار ان کے زیر نگیں تھا اور ایک انگریز فوجی قلعہ کے امور نمٹایا کرتا تھا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد تاحال بالا حصار پاکستانی فوج کے حوالہ ہے اور فرنٹیئر کانسٹبلری کے زیر نگیں ہے۔
واضح رہے کہ 2015ء کے زلزلہ میں بالا حصار کو نقصان پہنچا ہے اور اس کی ایک دیوار گرچکی ہے۔
قلعہ بالاحصار پشاور شہر کے شمالی حصہ میں قائم ہے۔ زمین سے اس کی اونچائی بانوے فٹ ہے۔ قلعہ کی پیمائش دس ایکڑ یا چار ہزار مربع میٹر ہے۔ قلعہ کے اندر ایک پکی سڑک جاتی ہے۔
نوٹ:۔ ڈاکٹر لطیف یاد کی پختو تحریر’’د پیخور بالا حصار‘‘ کا اردو ترجمہ، جس میں عطاء اللہ جان ایڈووکیٹ نے راقم کی معاونت فرمائی۔