کبھی وہ وقت تھا کہ عمران خان اسلام آباد ڈی چوک میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر نواز شریف کو للکار رہے تھے۔ سابقہ حکومتوں کی ایک ایک غلطی، کوتاہی اور بیڈ گورننس کے واقعات سناتے تھے اور اپنے طور پر اصلاحِ احوال کے لیے نہایت مفید، دانشمندانہ اور بہترین تجاویز پیش کرتے تھے۔ عوام کے ساتھ ہم بھی عمران خان کی خاندانی، تعلیمی، سماجی اور مزاجی پس منظر کو نظر انداز کرتے ہوئے امید بھری نظروں سے اس وقت کا انتظار کر رہے تھے کہ جب عمران خان بر سرِ اقتدار آئے گا، تو ملک کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ اقتصادی اور معاشی مسائل کا مداوا ہو جائے گا۔ ’’سٹیٹس کو‘‘ ختم ہو جائے گا۔ عسکری اداروں کی بالادستی اور سول انتظامیہ میں مداخلت ختم ہو جائے گی۔ قومی خود مختاری بحال ہوجائے گی اور بیرونی عالمی طاغوتی قوتوں کی سیاسی ، معاشی اور تہذیبی غلبہ ا ور استحصال ختم ہو جائے گا۔ ملک میں امن و امان کے ساتھ رشوت و سفارش کا ماحول ختم ہو کر میرٹ اور استحقاق کی بنیاد پر ہر شہری کو اس کا حق ملے گا۔ پاکستان اگر عمران خان کے دورِ حکومت میں ایک اسلامی ملک نہیں بنے گا، تو یورپ اور مغربی ایشیائی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ایک ترقی یافتہ اور جمہوری ملک تو ضرور بنے گا۔
کتنے خوبصورت خواب تھے اور کتنے بہترین سپنے تھے، جو ہم خوابوں میں بھی اور کھلی آنکھوں سے بھی دیکھتے تھے۔ کتنی آرزو تھی کہ کبھی ہمارا ملک بھی بیرونی قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہو جائے گا اور ہم معاشی طور پر ایک خوشحال ملک بن جائیں گے۔ ہم ایک باعزت، خود مختار اور اپنے امور و معاملات چلانے میں غیروں کی مداخلت سے آزاد اپنے فیصلے خود کریں گے اور یوں ہم اپنا دینی، ثقافتی اور تہذیبی تشخص بحال کرلیں گے، لیکن تمام خواب اور سپنے اس وقت پریشاں ہوگئے جب عمران خان باوجود مقتدر ادارے کی ٹیکنیکی مداخلت کے واضح انتخابی اکثریت حاصل نہ کرسکے اور حکومت بنانے کے لیے اس کو دیگر مختلف قسم کے عناصر کی ضرورت پڑگئی۔ اس وقت کہتے: ’’کرپٹ عناصر کو اپنی انتظامیہ میں شامل نہیں کروں گا۔‘‘، ’’کسی بد نامِ زمانہ ہا رس ٹریڈنگ اور فروخت ہونے والوں کی میری کابینہ میں جگہ نہیں ہوگی۔‘‘لیکن خواہش بری بلا ہے اور پھر اختیار و اقتدار کی خواہش اور طلب تو سر چڑھ کر بولتی ہے۔ عمران خان نے اپنی سیاسی ضرورت کے تحت شیخ رشید جیسے شخص جس کو وہ ’’چپڑاسی‘‘ تک رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے، بارگیننگ اور ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ اسی طرح چوہدری پرویز الٰہی جس کو وہ ڈاکو قرار دیتے تھے، پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنوا دیا۔ کراچی کی دہشت گرد اور بوری بند لاشوں کی مؤجد، حکیم سعید اور صلاح الدین اور دیگر ہزاروں افراد کی قاتل جماعت ایم کیو ایم جس کے خلاف جرائم کے ثبوت حاصل کرنے کے لیے کبھی وہ لندن بھی گئے تھے، ان کو بھی پذیرائی بخشی۔ ان کو نفیس و نستعلیق لوگ قرار دیا۔ اس سے پہلے وہ بلند بانگ دعوے کرتے تھے کہ ’’مَیں مر جاؤں گا، لیکن بیرونی قرضے نہیں لوں گا، اور آئی ایم ایف سے تو ہر گز قرضے کی درخواست نہیں کروں گا۔‘‘ لیکن وہ سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور خان صاحب پاؤں کے ذریعے نہیں بلکہ سر کے بل آئی ایم ایف کے پاس گئے۔ بڑی منت، ترلوں اور تمام شرائط کے ساتھ آئی ایم ایف سے تین سال کے عرصے میں صرف چھے ارب ڈالر کے حصول میں کامیاب ہوئے۔ ا ن شرائط کے باوجود کہ پوری وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر ان کے حوالے کیا۔ ان کا نامزد کردہ وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ ان کا نامزد کردہ سٹیٹ بینک کا گورنر اور ایف بی آر کا چیئر مین مقرر کیا۔ ان کے تجویز کردہ ٹیکسز کا نفاذ کیا گیا۔ ان کی ہدایت پر روپے کی قیمت گرا دی گئی۔ پیٹرول، گیس اور بجلی مہنگی کی گئی، جس کے نتیجے میں مہنگائی اور گرانی کا گراف ایک دم اوپر چلا گیا اور عوام اس صورت حال پر چیخ اٹھے۔
قومی خود مختاری کی بحالی کی امید اُس وقت دم توڑ گئی جب مغربی طاغوتی قوتوں کے دباؤ پر ’’توہینِ رسالت‘‘ کے جرم میں سزائے موت پانے والی آسیہ ملعونہ کو باعزت طور پر رہا کر کے یورپ بھیج دیا گیا۔ سول حکمرانی اور سیاسی حکومت کی بالادستی کا خواب اس وقت پریشاں ہوا جب بالادست مقتدر دفاعی ادارے کے اشارے پر ججز کو نشانہ بنایا گیا اور عدلیہ کو من مانے فیصلوں کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ کرپشن اور بد عنوانی کا خوبصورت سپنا اس وقت ٹوٹ گیا، جب چار سو تیس منی لانڈرنگ میں ملوث پانامہ کیس میں نامزد افراد کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی۔ بیرونی ملک قومی اثاثوں اور منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کی گئی اربوں کھربوں کا تذکرہ گول کر دیا گیا۔ جن کو سب سے بڑا چور ، ڈاکو اور کرپٹ قرار دیا گیا، ان کو نہایت کمزور قانونی دفعات کے تحت مبحو س کیا گیا، لیکن کوئی ریکوری نہیں کی گئی۔ وہ جیل میں وی آئی پی قیدی ہیں اور اپنے چودہ ماہ کے ناکام اور بیڈ گورننس کے ذریعے عوام کے لیے ایک بار پھر قابلِ قبول اور مقبول قیادت بنا دیے گئے۔
خارجہ پالیسی کی ناکامی کا یہ حال ہے کہ غیر تو غیر، جو چند ملک دوست کہلاتے تھے، وہ بھی ناراض، کبیدہ خاطر اور عمرانی حکومت کے اقدامات کے شاکی اور گلہ مند بن گئے۔ مسلمان عرب ملکوں کے ساتھ دوستی اور تعلق کا یہ حال ہے کہ وہ ہمارے کھلے اور دیرینہ دشمن کو اعزازات سے نواز رہے ہیں اور ان کے سامنے ہمارئی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ حالاں کہ ہم بہترین محلِ وقوع میں وسیع زرخیز خطہ زمین، بائیس کروڑ آبادی، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ اور نیوکلیئر طاقت ہیں، لیکن جب قیادت ہی بودی، کمزور اور وِژن سے تہی دامن ہو، تو پھر تو اسی صورت حال کا سامنا کرنا ہوگا۔
غرض، چودہ ماہ کی حکمرانی میں عمران خان نے اپنی نا اہلی، سیاسی اخلاقیات کے بودے پن اور حکمت عملی کے لحاظ سے ناکام ترین حکمرانی کا نقشہ قوم کے سامنے رکھ دیا اور آج جو صورت حال ہے کہ پوری قوم عمران خان کے خلاف متحد اور متفق ہے۔ اس نے استعفا کا مطالبہ منطقی لحاظ سے بالکل درست اور صحیح ہے۔ غضب خدا کا ہسپتال بند پڑے ہیں۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈکس ہڑتال پر ہیں۔ پوری تاجر برادری نالاں، شکوہ سنج اور ہڑتال پر تلی ہوئی ہے۔ اساتذہ نئے نئے احکامات اور ہدایات سے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مرحلے میں ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیز مولانا فصل الرحمان کے آزادی مارچ میں شامل اور حکومت کے خلاف متحد ہیں۔ اس کے باوجود عمران خان کے کھوکھلے نعرے اور دعوے جاری ہیں۔ بجائے اس کے کہ اصلاحِ احوال کے لیے کوئی عملی معقول لائحہ عمل بنایا جائے۔ وزرا دھمکی آمیز بیانات دے کر جلتی پر تیل ڈالنے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بندۂ خدا جب آپ سے حکومت نہیں چلائی جا رہی، اور آپ اس صورت حال اور مسائل پر قابو نہیں پا سکتے، تو اخلاقی اور قانونی طور پر باعزت استعفا دے کر نئے انتخابات کا اعلان کریں اور قوم کو موقع فراہم کریں کہ وہ پاک صاف ہر قسم کی دھاندلی اور مداخلت سے پاک انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں۔ اس کے نتیجے میں یہ ہیجان خیزی، ہنگامہ آرائی اور غیر یقینی صورت حال ختم ہو جائے گی، اور نئے حکمران قومی موڈ اور حالات و ضروریات کے مطابق کوئی نیا لائحہ عمل طے کرکے حالات پر قابو پانے کی کوشش کریں گے، لیکن عمران خان تئیس سالہ جدوجہد اور کوششوں سے حاصل ہونے والا اقتدار و اختیار اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں۔ کیوں کہ پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ حکمران نے برضا و رغبت اور قومی مطالبے پر اقتدار اور حکمرانی سے دست برداری اختیار کی ہو۔ یہاں جو بھی صحیح یا غلط طریقے سے بر سر اقتدار آیا، بس اس نے یہ سمجھ لیا کہ اب تو مرتے دم تک ہی میں حکمران رہوں گا، بلکہ بہت سوں نے تو مرنے کے بعد بھی اپنی اولاد کے لیے حکمرانی کی منصوبہ بندی کر لی تھی، لیکن ان نا عاقبت اندیش لوگوں کی بصارت اور بصیرت اتنی خام اور کمزور ہے کہ انہوں نے اپنے پیشرو حکمرانوں کا انجام، ان کا زوال اور عبرتناک انداز نہیں دیکھا۔ پاکستان میں اس عبرتناک داستان کی نشانی بھٹو خاندان میں دیکھی جا سکتی ہے۔ بھٹو مرحوم جیسا شاطر، جہاں دیدہ اور ہر لحاظ سے قابل سیاست دان کس طرح اقتدار و اختیار کے ایوانوں سے تختہ دار پر پہنچا۔ اس کی بیٹی ’’دخترِ مغرب‘‘ بے نظیر بھٹو کس طرح عبرتناک انداز میں موت سے دوچار ہوئی۔ مرتضیٰ بھٹو اپنی ہی بہن کی حکومت میں پولیس گردی کا شکار ہوا۔ دوسرے بیٹے شاہ نواز بھٹو کس طرح نامعلوم انداز میں پُراَسرار طریقے سے قتل ہوئے۔ غرض یہ کہ آج بھٹو مرحوم کا والی وارث اس کا پوتا نہیں بلکہ نواسا بلاول بھٹو ہے، جو آصف زرداری کا بیٹا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کا یہ خاصا ہے کہ اقتدار کے حصول کے بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں اور اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پاتے کہ میں ایک کمزور فانی انسان ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اس چند روزہ زندگی میں عوامی خدمت اور فلاح و بہبود کے لیے ایک موقع عنایت فرمایا ہے۔ لہٰذا کیوں نہ میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خلقِ خدا کی خدمت اور دیکھ بھال کے لیے خلوصِ دل سے حاکمِ وقت بن کر نہیں بلکہ خادمِ خلق بن کر زندگی کے یہ چند مستعار لمحے صرف کر وں، لیکن انسان اپنی خواہشات کا اسیر ہے اور ان خواہشات میں سب سے بڑی خواہش لوگوں پر حکمرانی ہے۔
عمران خان سمیت تقریباً سبھی نام نہاد سیاست دان جب اپنے سامنے لوگوں کا جم غفیر دیکھتے ہیں، جو اُن کے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ ایک ایک جملے پر تحسین و آفرین کے ڈونگرے برساتے ہیں، تو پھر یہ بھول جاتے ہیں کہ میرے منھ سے کیا نکل رہا ہے اور مَیں کیا کہہ رہا ہوں۔ بھٹو مرحوم نے اپنے سیاسی مخالفین کے لیے مختلف نام رکھے تھے۔ وہ کسی کو چوہا، کسی کو ڈبل بیرل خان اور نجانے کیا کیا القاب و آداب سے نوازتے تھے۔ اسی طرح عمران خان بھی جوشِ خطابت میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ میں جو باتیں کہہ رہا ہوں، اپنے مخالفین کے لیے جوا لفاظ اور دشنام آمیز لہجہ استعمال کر رہا ہوں۔ بحیثیتِ پاکستان کے وزیر اعظم کے یہ لب و لہجہ میرے شایان شان ہے! ویسے توتحریک انصاف میں اس معاشرے کی جو تلچھٹ شامل ہوئی ہے۔ لب و لہجے کے لحاظ سے ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے، لیکن وزیر اعظم کا منصب تو ایک با وقار سنجیدہ اور متانت و شرافت کا مظہر منصب ہے۔ کم از کم اپنا خیال نہیں، تو اس عہدے اور منصب کا خیال تو کرنا چاہیے۔ دینِ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ کافر، مشرک اور شیطان کو بھی گالی اور دشنام مت دو۔ کیوں کہ تمہاری اپنی شرافت و نجابت پر حرف آتا ہے۔ اے کاش کہ ہمارے موجودہ حکمران طبقے کو بحیثیتِ مجموعی ہوش آئے کہ اقتدار و اختیار ایک نہایت مشکل ، کٹھن اور گراں بار ذمہ داری ہے۔ اگر قوم آپ کو پسند نہیں کرتی، اور آپ کے طرزِ حکمرانی اور اقدامات سے مطمئن نہیں، تو کیوں زور زبردستی قوم کی گردن پر سوار رہنا چاہتے ہو۔ شرافت اور عزت کے ساتھ کندھے جھٹک کر اور اپنی چادر کندھے پر ڈال کر قوم سے کہو کہ اگر مجھے پسند نہیں کرتے، تو استعفا میرا بہ حسرت و یاس۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔