یہ مثل اس موقعہ پر بولتے ہیں جہاں پانچ بڑے بڑے مشیر ہوں اور وہاں ایک اُن سب سے بڑھ کر مدبّر اور تجربہ کار "نعمتِ غیر مترقبہ” کی طرح آجائے اور جس کے آنے سے کامیابی کی امید بندھ جائے۔ جہاں کئی اعلیٰ اشخاص موجود ہوں، وہاں ایک اور دانشور آجائے، تو بھی یہ مثل کہی جاتی ہے۔ اس کہاوت کا پس منظر کچھ یوں ہے:
"پنڈے جنہیں پانڈے بھی کہتے ہیں، مہا بھارت کی لڑائی کے ہیرو ہیں اور جن کے نام یہ ہیں: جُدِھشٹر، بھیم سین، اَرجُن، نَکُل اور سہدیو۔ یہ پانچوں بھائی کوروؤں سے جنگ کر رہے تھے۔ ان پانچوں کے ساتھ چھٹے نرائن یعنی کرشن جی بھی ہوگئے۔ شری کرشن جی کے مشورہ پر عمل کرنے ہی سے انہیں فتح حاصل ہوئی اور کوروؤں کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔”
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 78 سے انتخاب)