پچھلی صدی کے وسط میں اردو خاصی ترقی کر چکی تھی۔ اس زمانے میں اہلِ ملک نے کئی لغات لکھیں، جو زیادہ اہم نہیں۔ اس وقت تک اُردو کی جتنی لغات لکھی گئی تھیں، ان سب میں جامع اور کار آمد لغت مولوی سید احمد کی ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ ہے۔ یہ کتاب چار جلدوں میں ہے۔ موصوف نے ڈاکٹر فیلن کے ساتھ کام کیا تھا۔ لیکن ان کی لغت فیلن کی ڈکشنری سے الگ چیز ہے۔ ایک تنہا آدمی جتنی محنت اور کاوش کر سکتا ہے، انہوں نے اس کا حق ادا کردیا ہے۔ اردو زبان ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔
فرہنگِ آصفیہ سے بعد کے اردو لغت نویسوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہندی لغت نویسوں نے بھی اس فرہنگ سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔
فرہنگِ آصفیہ میں ایک قابلِ اعتراض بات یہ ہے کہ فحش الفاظ اور محاورے ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کیے ہیں۔ یہ ان کے استاد ڈاکٹر فیلن کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر فیلن نے بھی اپنی ڈکشنری میں فحش الفاظ چن چن کر لکھے ہیں۔ اسی طرح منشی چرنجی لال کی ’’مخزن المحاورات‘‘ بھی جو بلند پایہ کتاب ہے، فحش محاوروں سے بھری پڑی ہے۔ یہ بھی ڈاکٹر فیلن کا فیض ہے۔ کیوں کہ منشی صاحب نے بھی فیلن کے ساتھ ان کی ڈکشنری میں کام کیا ہے۔
فرہنگِ آصفیہ میں بعض الفاظ کے ضمن میں بے تکی باتیں بھی لکھی گئی ہیں۔ ان نقائص کے باوجود یہ اردو کی بے مثل لغت ہے، اور اردو الفاظ کی سند کے لیے حرف آخر کا حکم رکھتی ہے۔
(غلام ربانی کی کتاب ’’الفاظ کا مزاج‘‘ مطبوعہ ’’رابعہ بُک ہاؤس‘‘ صفحہ 123 اور 124 سے انتخاب)