وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنا سہ روزہ دورۂ امریکہ مکمل کرکے واپس آئے ہیں۔ دورے پر جانے سے پہلے تجزیہ نگار عمران خان کے دورے کی کامیابی اور ناکامی پر بحث کرتے رہے ہیں اور اب ان کے واپس آنے کے بعد بھی اس پر بحث جاری رہے گی۔
یہ تو وقت آنے پر ہی پتا چلے گا کہ عمران کا دورہ کامیاب تھا یا ناکام، اور پاکستان نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ امریکہ کا صدر ٹونی بلیئر ہو، بش سینئر ہو، بش جونئر، اُبامہ ہو یا ڈونلڈ ٹرمپ، سب کا مطمحِ نظر امریکی مفادات ہوتے ہیں نہ کہ ذاتی۔ امریکی عہدیدار چاہے کوئی بھی ہو، ان کی پالیسی تبدیل نہیں ہوتی۔ پاکستان نے روس کے خلاف امریکہ کو پشاور کا ہوائی اڈا استعمال کرنے کی اجازت دی۔ افغانستان میں روس کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کو جتوایا۔ طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستانی ہوائی اڈے، فضائی حدود اور سڑکیں استعمال کرنے کی اجازت دی لیکن اس کے بدلے میں امریکہ نے پاکستان کو کیا دیا؟
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکہ نے جنگی ہوائی جہاز F.104 کے پرزہ جات اور مالی امداد بند کی۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ہندوستان کا ساتھ دیا۔ افغانستان میں روس کی شکست کے بعد پاکستان کو اکیلا چھوڑ دیا۔ افغانستان میں مبینہ کامیابی کے بعد امریکہ نے پاکستان پر ہندوستان کو ترجیح دی۔
اب امریکہ ایک بار پھر پاکستان کے توسط سے اپنی افواج کو بہ حفاظت نکالنا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا دورہ طے کرانے کا مقصد ہی امریکی مفادات کا حصول ہے۔
عمران خان کے دورہ کے موقعہ پر ہمارے ایک مہربان محترم ارشد علی نے، جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، میسج میں امریکی اخبار میں عمران خان کا ایک شائع شدہ کارٹون اور اس کے ساتھ لکھا ہوا تبصرہ: "سلیکٹڈ وزیر اعظم کے دورۂ امریکہ کے متعلق امریکی اخبار میں شائع ہونے والا کارٹون، اُو یوتھیو، غیرت سے مر جاؤ” بھیجا۔
یہ مسیج مجھے اس لیے بھیجا گیا کہ میں تحریکِ انصاف کا حامی ہوں۔ محترم ارشد علی سے میں کیا کہوں کہ یہ صرف یوتھیوں کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستانی قوم کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ کیوں کہ وزیر اعظم کسی ایک سیاسی پارٹی کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہوتا ہے، اور پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دار صرف پاکستان تحریکِ انصاف اور وزیر اعظم عمران خان نہیں بلکہ تمام سیاسی پارٹیاں، ان کے رہنما اور ہم سب ہیں۔ ہم اور ہمارے سیاسی قائدین نے پاکستانی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔
تحریکِ انصاف تو پہلی بار اقتدار میں آئی ہے۔ اس لیے ان سے زیادہ ذمہ داری تو جماعتِ اسلامی پر عائد ہوتی ہے۔ کیوں کہ جماعتِ اسلامی نے ہر دور میں ان سیاسی پارٹیوں اور آمروں کی حمایت کی ہے، جس کی وجہ سے آج پاکستان کو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔ جماعتِ اسلامی نے نظامِ مصطفیٰ کے نام پر عوام کو دھوکا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف "مردِ مومن، مردِ حق، ضیاء الحق” کا نعرہ لگایا اور ان کے پاؤں مضبوط کیے۔
جماعتِ اسلامی کے ارکان جنرل ضیاء الحق کے مجلس شورا کے ممبر بنے۔
ضیاء الحق کے صدراتی ریفرنڈم کے لیے جماعت کے رہنماؤں نے جماعتِ اسلامی کو استعمال کیا۔ جماعتِ اسلامی، آئی جے آئی میں مسلم لیگ نون اور دوسری سیکولر سیاسی جماعتوں کے ساتھ رہی۔ جماعتِ اسلامی مذہبی اقدار کا پاس رکھتے ہوئے آئی جے آئی کے جلسوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی خاتون رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کی جعلی برہنہ تصاویر پر مبنی پوسٹرز تقسیم کرتی رہی۔
اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جماعت اسلامی سمیت آئی جے آئی میں شامل تمام سیاسی جماعتوں پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے رقوم لینے کا الزام ثابت ہوچکا ہے۔ عمران خان اس وقت یہودی تھے اور نہ نصرانی جب کہ ایم ایم اے کے قائد مولانا فضل الرحمان کو وزیر اعظم بننے کے لیے عمران خان کا ووٹ درکار تھا۔ عمران خان اس وقت مسلمان تھے جب ان کے جلسوں میں ان کے حق میں تقاریر کیا کرتے تھے۔
ملاکنڈ کے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں جماعتِ اسلامی کے امیدوار جناب بخیار معانی کے حق میں تقریر کے وقت عمران خان مسلمانوں میں سے تھے۔ جماعتِ اسلامی خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی اتحادی تھی، تو اس وقت تحریکِ انصاف اور عمران خان مشرف بہ اسلام تھے۔ جماعتِ اسلامی صوبائی حکومت میں تحریکِ انصاف کی اتحادی اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کی حامی، جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق تحریک انصاف کے ووٹوں سے سینیٹر منتخب ہوئے، لیکن سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں مسلم لیگ نون کو ووٹ دیا۔
جب ایم ایم اے کے تحت انتخابات میں جماعت اسلامی کو فائدہ نظر آیا، تو جمعیت علمائے اسلام کے انتخابی نشان "کتاب” کو ووٹ دینا جائز قرار دیا (ووٹ نہ دینے والوں کو تجدیدِ نکاح کا کہا جاتا تھا) اور جب دونوں کے مفادات متصادم ہوئے، تو پھر کتاب کو ووٹ دینا ناجائز قرار دیا گیا (معلوم نہیں کہ پھر خود انھوں نے تجدیدِ نکاح کی ہوگی کہ نہیں)۔
اب جب کہ تحریکِ انصاف سے جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کو خطرہ ہے، تو انھوں نے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو یہودی اور یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا۔
جماعتِ اسلامی مفادات کی خاطر 2018ء کے الیکشن میں پھر ایم ایم اے میں شامل رہی، اور کتاب کے نشان پر انتخاب لڑا، اور مفادات پر ایک بار پھر آپس میں اختلافات آگئے۔
اب رہا امریکی اخبار میں عمران خان کے کارٹون کا مسئلہ، تو محترم ارشد علی کی خدمت میں ایک تاریخی واقعہ عرض ہے۔ایران کے نادر شاہ نے جب ہندوستان پر حملہ کرکے ہندوستان کو فتح کیا، تو اس وقت کے مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کو نادر شاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ محمد شاہ رنگیلا کو ملک و عوام سے زیادہ کوہِ نور کے قیمتی ہیرے کی فکر لاحق تھی، اور ہیرے کو اپنی پگڑی میں چھپائے رکھا۔ محمد شاہ رنگیلا مطمئن تھے کہ کوہِ نور کا قیمتی ہیرا نادرشاہ کے ہاتھ نہیں آئے گا۔
جس طرح ہمارے ہاں رواج ہے کہ اگر کوئی عورت دوسری عورت کو بہن بنانا چاہے، تو اس سے اپنے دوپٹے کا تبادلہ کرکے اسے بہن بنا دیتی ہے۔ اس طرح نادر شاہ نے اپنی پگڑی محمد شاہ رنگیلا کے سر پر رکھ دی، اور اس کی پگڑی اتار کر اپنے سر رکھ دی۔ شاید نادر شاہ کو کسی نے بتایا ہو کہ کوہِ نور ہیرا محمد شاہ رنگیلا نے اپنی پگڑی میں چھپایا ہے۔ صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ محمد شاہ رنگیلا کی بیٹی کا رشتہ نادر شاہ کے بیٹے سے ہوگا۔ نکاح کے وقت ایک نمک خوار نے محمد شاہ رنگیلا سے کہا کہ سُبکی تو بہت ہوچکی، کیوں نہ نادر شاہ سے اس کا خاندانی شجرۂ نسب پوچھ لیا جائے کہ اس طرح "چرواہے” کے اس بیٹے کو اوقات دلائی جاسکے۔ جب نکاح کی تقریب شروع ہوئی، تو رواج کے مطابق دلہن کے والد نے اپنا نام لکھوا کر خاندانی نسب نامہ کو اکبرِ اعظم سے ظہرالدین بابُر تک، بابُر سے امیر تیمور اور امیر تیمور سے چنگیزخان تک بیان کیا۔ جب دولہا کا حسب نسب پوچھا گیا، تو نادرشاہ نے ولدیت میں اپنا نام لکھوا دیا۔ پھر تاحدِ نگاہ بھرے پنڈال میں عالمِ سرشاری میں کھڑے ہوتے ہوئے تلوار سونت کر بولا "لکھو! ابنِ شمشیر ابنِ شمشیر ابنِ شمشیر اور جہاں تک چاہو لکھتے جاؤ۔” یہ اس امر کا اعلان تھا کہ طاقت کے سامنے کسی شجرۂ نسب یا کسی دستور کی کوئی وقعت نہیں۔
تو محترم ارشد علی صاحب جب تک ہم اپنے آپ میں وہ خوبیاں پیدا نہ کریں، اور اپنے آپ کو اس قابل نہ بنائیں کہ ہم کسی کو جواب دینے کے قابل ہوں، تو ہمارے ایسے کارٹون شائع ہوں گے اور ائیرپورٹوں پر ہمارا لباس اتار کر تلاشی لی جائے گی۔
اس میں صرف یوتھیوں کا کیا قصور؟ انھوں نے تو اپنے بہتر مستقبل کے لیے تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا ہے۔ یوتھیوں کو تو سمجھ آگئی ہے کہ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی پارٹیاں ان کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہی ہیں، لیکن جماعت اسلامی کو آج تک یہ ادراک نہ ہوسکا۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔