افغان امن تنازعہ، رکاوٹ کیا ہے؟

افغانستان امن تنازعہ حل میں کئی اہم معاملات رکاؤٹ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات کے چھے دور ہوچکے ہیں۔ دونوں فریقین کا کسی بھی مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ کا جاری نہ ہونا مسلسل ابہام کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس ضمن میں افغان طالبان کے دوحہ سیاسی دفتر کے ذرائع کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا ہے کہ امریکہ اور اماراتِ اسلامیہ افغانستان کے درمیان افغان امن عمل کا معاہدہ طے پاگیا ہے۔ معاہدے کے مطابق امریکہ افغانستان سے اپنی تمام فوجیوں کا انخلا کرے گا اور مستقبل میں افغانستان کے داخلی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ تاہم امریکی ذرائع نے ابھی اس کی تصدیق نہیں کی بلکہ چار نِکاتی معاہدے پر مزید بات چیت کا اظہار کیا ہے۔ افغان طالبان بھی دوحہ مذاکرات میں یقین دہانی کراچکے ہیں کہ افغانستان کی سر زمین کو امریکہ سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کی پناہ گاہ کے طور پراستعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نیز داعش سمیت عالمی امن کے لیے خطرات کے خلاف عملی اقدامات کرے گا۔ توقع ہے کہ قطر مذاکرات کے بعد افغان طالبان اور افغانستان کی اپوزیشن جماعتوں کے درمیان باہمی اتفاق رائے بھی جلد سامنے آ جائے گا۔
واضح رہے کہ قطر مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان کی جیلوں میں ہزاروں ایسے قیدیوں میں سے سیکڑوں اسیروں کو رہا کر دیا گیا ہے جو کابل انتظامیہ کی جانب سے شکوک کے نام پر حراست میں لیے گئے تھے۔ سیکڑوں قیدیوں کی رہائی پر افغان طالبان نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ توقع ظاہر کی ہے کہ امریکہ مزید قیدیوں کو رہائی کرائے گا۔ کیوں کہ افغان طالبان کے مطابق ان اسیروں کو صرف شک شبے کی بنیاد پر ماورائے قانون حراست میں لیا گیا تھا، جن کا قصور یہ تھا کہ کسی نے افغان طالبان کو انسانی ہمدردری کے نام سے کبھی پانی پلایا تھا یاکھانا کھلا یا تھا۔
اس وقت افغان طالبان کے سیاسی امور کے نائب امیر ملا عبدالغنی بردار سے اہم ممالک کے وفود سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ماسکو میں روس اور افغانستان کے درمیان صد سالہ تعلقات پر روس اور بعدازاں سابق افغان صدر حامد کرزئی کی قیادت میں الحاج غنی بردار کے ساتھ مذاکرات نے پوری دنیا میں توجہ حاصل کی۔ اس سے قبل افغانستان کے لیے جرمنی کے خصوصی نمائندے Markus Potzel نے بھی قطر میں طالبان کے ساتھ ایک ملاقات کی، جو افغانستان میں امن کوششوں کا حصہ ہے۔ افغان طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ Markus Potzel نے طالبان کے نائب رہنما ملا عبدالغنی برادر کے ساتھ بات چیت کی، جو امن کوششوں میں افغان طالبان کی قیادت کر رہے ہیں۔ انہوں نے ممکنہ امن معاہدے کے مختلف پہلوؤں اور اس حوالے سے جرمنی کی کوششوں کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا۔ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر اور تنظیم کے سیاسی معاون ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان کے ایک وفد نے گذشتہ ہفتے چین کا دورہ کیا تھا۔ طالبان کے وفد نے چینی انٹیلی جنس حکام سے ملاقات اور بات چیت کی۔ اگرچہ طالبان کے ذرائع نے وفد کے دورۂ ایران کا دعویٰ کیا ہے، تاہم ایران نے سرکاری طور پراس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ قطر میں طالبان کے ذرائع کے مطابق تہران دورے کے دوران میں ایرانی حکام اور طالبان رہنماؤں کے درمیان افغانستان میں قیامِ امن پر بات چیت کی گئی۔ افغان طالبان سے عالمی رہنماؤں کی ملاقاتوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کرغیزستان میں منعقد شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر اشرف غنی نے کہا کہ ’’ خطے اور دنیا کے بعض ممالک طالبان کے ساتھ سیاسی تعلقات اور سفارتی رابطے منقطع کریں۔‘‘
افغانستان سے امریکی انخلا میں سست روئی ماضی میں 80 کی دہائی کے دوران میں جنیوا مذاکرات کے معاہدے کے بعد سوویت یونین کی عجلت میں انخلا کے بعد پیدا شدہ حالات کا تلخ تجربہ بھی ہے۔ جنیوا مذاکرات اور معاہدے میں افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے وقت بھی امریکی نمائندے شریک تھے۔ اقوام متحدہ کی نگرانی میں 14 اپریل 1988ء کو جنیوا میں معاہدے اور فیصلے پر دستخط ہوئے تھے کہ سوویت یونین نو مہینے میں افغانستان سے انخلا مکمل کرلے گا۔ روسی حکام افغانستان میں ہر سال کم از کم پانچ ارب ڈالر خرچ کرتے تھے،، جب کہ صورتحال یہ تھی کہ روس معاشی طور اتنا بڑا مالی نقصان برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ روسی صدر گورباچوف نے مزید تباہی سے بچنے کے لیے فوری انخلا کو ترجیح دی، اور 9 ماہ کے واپسی کا عمل محض تین ماہ میں مکمل کر لیا۔ سوویت یونین کی جلد بازی کی وجہ سے افغانستان میں سیاسی نظام فراہم نہ ہوسکا۔ روس اور امریکہ نے سیاسی نظام و حل پیش کرنے کی بجائے 9 برس تک لڑی گئی گوریلا جنگ کے بعد افغانستان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ معاہدے کے بعد جو عبوری حکومت قائم کی گئی، اس میں اختلافات اس قدر شدید نوعیت کے پیدا ہوگئے کہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ روس نے واپسی کے بعد تین سال تک کابل انتظامیہ کے ساتھ مالی اور سیاسی تعاون جاری رکھا۔ جب بورس یلسن نے روسی سیاست میں قدم رکھا، تو اس نے ستمبر 1991ء میں اعلان کیا کہ وہ کابل انتظامیہ کا بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتے۔ چناں چہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی کمیونسٹ حکومت روس کے عدم تعاون کے نتیجے میں دم توڑ گئی۔
اب تازہ صورتحال یہی ہے کہ امریکہ افغانستان میں سوویت یونین جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔ وہ بھی اسی طرح منطقی انجام تک پہنچ رہا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے جس سرعت کے ساتھ سیاسی عمل شروع کیا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان، امریکہ کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ سیاسی مفاہمت کے بغیر امریکہ کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ ا مریکہ کے افغان طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات میں کسی حتمی معاہدے کو منظر عام لانے پر دونوں فریقین کو تحفظات کا سامنا ہے۔ امریکہ اپنا انجام سوویت یونین کی طرح نہیں چاہتا اور شکست کے تاثر کو دور کرنے کے لیے مذاکرات کو طوالت دے رہا ہے، تاکہ ظاہر کیا جاسکے کہ امریکہ، سوویت یونین کی طرح عجلت میں نہیں بلکہ افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے متفقہ معاہدے کے بعد اپنے اہداف حاصل کرنے بعد نکلا ہے۔ امریکہ کی جانب سے کابل انتظامیہ کو مذاکرات میں شریک کرانے کی تمام تر کوششوں کا مقصد بھی یہی رہا ہے کہ مستقبل میں افغانستان میں جو بھی حالات ہوں۔ اس کی ذمہ داری امریکہ کی بجائے کابل انتظامیہ اور افغان طالبان پر عاید ہو۔
دوسری جانب افغان طالبان کابل انتظامیہ کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کیے، لیکن کابل انتظامیہ نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ دوسرے مرحلے کو بڑی صفائی کے ساتھ سبوتاژ کردیا تھا، تاہم ماسکو میں روس کے تعاون سے پھر امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جو پوری دنیا میں بھرپور توجہ کا مرکز بنا۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے حامد کرزئی کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں او ر ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں اتفاق رائے پایا گیا۔ فیصلہ کن اجلاس جلد ہی دوحہ قطر میں منعقد ہوگا، جس میں امریکی انخلا کے بعد حکومتی انتظام و انصرام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ نیز افغانستا ن میں مختلف شدت پسند گروپوں کے حوالے سے بھی متفقہ حکمت عملی پر غور وفکر کیا جائے گا ۔

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔