جو چلے تو جاں سے گذر گئے

اخوان المسلمون کے قافلۂ سخت جاں کے ایک اور راہی، ڈاکٹر حافظ محمد مورسی اپنی نذر پوری کرگئے اور حسن البناؒ، سید قطبؒ، زینب الغزالیؒ، عبدالقادر عودہؒاور محمد بدیعؒ جیسے عزیمت کے راہیوں کے ساتھ جا شامل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اور آمروں، غاصبوں اور ظالموں کے خلاف جدوجہد کرنے والے تمام شہیدوں کے مساعی کو قبول فرمائے اور ان کی قبروں کو منور و معطر فرمائے، آمین!
عرب بہار (Arab Spring) کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ سب سے نمایاں تبدیلی مصر کے سیاسی افق پر 30 جون 2012ء کو اس صورت نمودار ہوئی جب 65 سال سے مسلسل فوجی حکومتوں کے زیرِ عتاب و زیرِ تشدد جماعت ’’اخوان المسلمون‘‘ کے ڈاکٹر مورسی 63 سال کی عمر میں منصبِ صدارت پر ساٹھ فی صد ووٹ لے کر جلوہ افروز ہوئے۔
ڈاکٹر مورسی (جو کہ بنیادی طور پر تعلیم و تعلم سے وابستہ شخصیت تھے) نے کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی سے میٹریل سائنس انجینئرنگ میں 1982ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور بعد ازاں اسی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے اس دوران میں امریکہ کی بین الاقوامی خلائی ایجنسی (NASA) کے لیے بھی مختلف پروجیکٹس پر کام کیا، لیکن بہرحال 1985ء میں واپس مصر پہنچ کر اُدھر ہی کی ایک یونیورسٹی میں انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین کے طور پر کام کرنا شروع کیا، جس کا سلسلہ 2010ء تک جاری رہا۔
ڈاکٹر مورسی 2000ء سے ہی عملی سیاست سے وابستہ ہوگئے تھے اور جب اخوان المسلمون نے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نام سے سیاسی پارٹی تشکیل دی، تو اس کی اعلیٰ ترہن قیادت کے طور پر سیاسی افق پر چمک اُٹھے اور ’’عرب بہار‘‘ کے نتیجے کے طور پر منعقد ہونے والے انتخابات میں اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے مصر کے پہلے منتخب صدر بن گئے، اور صدر بنتے ہی مرکزی اسمبلی کو بحال کیا، جسے فوجی حکومت نے تحلیل کرلیا تھا۔ فوجی قیادت پارلیمنٹ کی بحالی پر جِز بِز ہوئی، لیکن صدر مورسی نے اسے جمہوریت کے تسلسل کا بنیادی اقدام قرار دیا۔ یہیں سے سابقہ کار پردازوں کے ساتھ منتخب حکومت کی چپقلش کا آغاز ہوا، جس سے پتا چلتا ہے کہ بنیادی طور پر فوجی ادارے انتقالِ اقتدار کی بجائے شراکتِ اقتدار کے فلسفہ پر کار فرما تھے، جس میں کلیدی کردار وہ اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے، جب کہ منتخب حکومت اس کے علی الرغم عوامی مینڈیٹ جس میں اسلامی تشخص بنیادی کردار کا حامل تھا، کے درپے تھا۔ ساٹھ سالہ فوجی آمریت سے مصری معاشرہ، ادارے اور قوانین شکست و ریخت کا شکار تھے۔ صدارتی نظام ہونے کے باوجود اسلامی تشخص کو بحال کرنے کی کوئی سبیل نہیں نکل رہی تھی۔ مصری عدلیہ جو کہ بنیادی طور پر سابقہ فوجی ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے آلہ کار تھی، ہر قسم کی اصلاح و تعمیر کی مخالفت میں کمر بستہ تھی۔ اسی لیے صدر مورسی نے نیا آئین بنانے کا عمل شروع کیا اور پارلیمنٹ سے منظور کروانے کے بعد عوامی ریفرنڈم کے ذریعے، جس میں اس آئین کے حق میں 75 فی صد ووٹ پڑا تھا، اس کو پذیرائی بخشی۔
آئینی میدان کے علاوہ معاشی میدان میں صدر مورسی نے اہم اور آزادانہ پالیسی تبدیلیاں لانے کا عمل شروع کیا، جس میں نہرِ سویز کے ثمرات کو سامراجی طاقتوں کے علی الرغم مصری عوام کی بہبود کے لیے بارآور کرنا شامل تھا۔ اس ضمن میں قطر کے ساتھ آٹھ ارب ڈالر کے فی الفور معاہدے کیے، یورپین بنک برائے تعمیر و ترقی کے ساتھ ایک ارب ڈالر کے معاہدے کیے اور انڈیا کے اس وقت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کے ساتھ بڑے منصوبوں پر اتفاق رائے قائم کیا۔
عالمی فورمز میں صدر مورسی نے جان دار نمائندگی کا عمل شروع کیا، اور بغیر کسی احساسِ کمتری کے اسلامی روح سے بھرپور مؤقف ہر جگہ پر پیش کیا، جس کی اعلیٰ ترین مثال اقوام متحدہ کے جنرل کونسل کے اجلاس میں ان کی تقریر کی صورت میں موجود ہے۔ ایران میں کھڑے ہوکر ایران کے مفادات کے متاثر ہونے کے باوجود غیر جانب دار تحریک کے اجلاس میں شامی استبدادی حکومت کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔ بیک وقت ترکی اور ایران سے بھی مضبوط تعلقات قائم کیے اور سعودی عرب اور اردن کے ساتھ بھی اعتماد سازی کی فضا قائم کی۔ افریقہ کے ایک غریب ملک ایتھوپیا کے دریائے نیل پر ڈیم بنانے کے آغاز کرنے پر فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ایتھوپیا پر حملہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، جسے صدر مورسی نے سختی سے مسترد کردیا۔
اسی تناظر میں فوجی اشرافیہ نے ڈھکوسلہ احتجاج کی صورت ایک ڈھونگ رچایا اور اس کی آڑ میں اقتدار پر قابض ہوکر صدر مورسی کو پابندِ سلاسل کیا۔ چھے سال کی انسانیت سوز اور درندگی سے بھرپور قید کے دوران میں ڈاکٹر مورسی راہی ملک عدم ہوگئے اور انہیں خفیہ طور پر دفن کیا گیا۔ کیوں کہ ’’مَیں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں‘‘ کے دعوے کرنے والے مُردوں سے بھی ڈرتے ہیں۔ ان ساری تفصیلات کو دیکھتے ہوئے تاریخ کے گوشوں سے عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے نابغوں کی یاد آتی ہے۔ یہ تاریخ انسانی کا نمک ہوتے ہیں، جن کی قدر نہ کرکے مصری عوام ایک ایسی دلدل کی طرف کھینچی چلی جا رہی ہے جس سے خلاصی بہت مشکل نظر آتی ہے۔ مردِ مجاہد صدر منتخب ہونے کے بعد اقوامِ متحدہ کے پہلے اجلاس میں یہ الفاظ کہنے کی سزا میں سالہا سال زِنداں کی نذر رہ کر شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز ہونے کی صورت امر ہوگیا اور یہی الفاظ ان کی بخشش کا ذریعہ بننے کے لیے کافی ہوں گے، ان شاء اللہ! ’’جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرے گا ہم اس کی عزت کریں گے اور جو ان کی عزت نہیں کرے گا، وہ ہمارا دشمن ہے۔‘‘ بقولِ عنایت علی خاں
لہو میں بھیگے تمام موسم
گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے
وفا کے رستے کا ہر مسافر
گواہی دے گاکہ تم کھڑے تھے
ہماری دھرتی کے جسم سے جب ہوس کے مارے
سیاہ جونکوں کی طرح چمٹے
تو تم کھڑے تھے!
تمہاری ہمت،تمہاری عظمت اور استقامت
تو وہ ہمالہ ہے جس کی چوٹی تلک پہنچنا
نہ ہم میں پہلے کسی کے بس میں
نہ آنے والے دنوں میں ہوگا
سو آنے والی تمام نسلیں گواہی دیں گی
کہ تم کھڑے تھے!

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔