پُوسٹ ٹُرتھ اِرا

اس دور کو اب ’’پوسٹ ٹرتھ‘‘ (Post Truth) یعنی "بعد از سچائی” کا دور کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اب حقائق ہمارے لیے وہ ہوں گے جنہیں کوئی طاقتور شخص یا ادارہ بیان کرے۔ یعنی اس کا ہر جھوٹ، پروپیگنڈا اور تشریح ہمیں سچ لگے گی۔ کسی دانا نے اس دور کو محض تشریحات کا دور کہا ہے، جو بندہ جس انداز سے جس کسی حقیقت کی تشریح کرے، ہمیں وہ سچ لگے گی اور ہم اس پر ایمان لائیں گے۔ ویسے علامہ اقبال نے برسوں پہلے کہا تھا کہ
حقیقت خرافات میں کھوگئی
یہ امت روایات میں کھوگئی
خرافات اس قدر ڈھٹائی سے اور تواتر سے آگے بڑھاتے ہیں کہ وہ عام لوگوں کو حقائق لگتے ہیں۔ جھوٹ اس تواتر سے بولا جاتا ہے اور اس اعتماد سے بولا جاتا ہے کہ سننے والے کو سچ لگتا ہے۔ یہی اس دور کی سب سے بڑی بد بختی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اب تک ایک ہزار سے زیادہ جھوٹ بولے ہیں۔ ان کو جب بتایا گیا کہ آپ نے فلاں قسم کا صریح جھوٹ بولا تھا، تو اس کا جواب تھا: "میں کہتا ہوں یہ سچ ہے، تو یہ سچ ہے۔” دوسری اہم مصیبت اس دور کی یہ ہے کہ ہمیں کچھ علم نہیں ہوگا، ہمیں معلوم نہیں ہوگا لیکن ہم سمجھ بیٹھیں گے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔
اس دنیا میں سیاسی طاقت اور اقتدار کے دائرے کے مالک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ہر کوشش کرتے ہیں۔ اقتدار اور سیاسی و سماجی اثر و رسوخ کے یہ دائرے نچلی سطح پر بھی موجود ہوتے ہیں اور لوگ ان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اقتدار کے اس دائرے کی کشمکش میں پھنسے لوگ مخالفین کو زیر کرنے واسطے دوسرے ذرائع بھی استعمال کرتے ہیں جن میں کچھ قانونی ہوتے ہیں اور کچھ غیر قانونی۔ قانونی صرف اداروں کا قیام ہوتا ہے، ورنہ اس کے اندر فیصلے کسی ایک طبقے یا شخص کو ہرانے کے لیے ہوتے ہیں۔ غیرقانی کی مثال اس ملک میں یا دنیا کے دوسرے ملکوں میں میڈیا پر پابندیاں ہے، تاکہ مخالف کی بات لوگوں تک نہ پہنچ پائے۔ مثلاً ایک طاقتور ادارے کی ساری باتیں تمام چینلوں پر براہِ راست دکھائی جاتی ہیں، لیکن جس کی وہ مخالفت کر رہا ہے اور جس پر وہ برس رہا ہے اس کو کسی چینل پہ آنے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح ایک سیاسی پارٹی کے شخص کو صرف اس لیے میڈیا سے دور کیا جاتا ہے، تاکہ وہ حکومت کی کسی پالیسی پر تنقید نہ کرسکے۔ تنقید کرنے والے صحافیوں اور اخبارات کو بند کیا جاتا ہے۔ ان کو عہدوں سے ہٹایا جاتا ہے۔
عدالت کسی ریاست کا ایک اہم ستون ہوتی ہے۔ یہ عدالتیں ہر دور یعنی جب سے تہذہب شروع ہوئی ہے، موجود رہی ہیں۔ اس سے پہلے بھی رہی ہیں جن کی صورت الگ ہوتی تھی۔ اقتدار کی اس کشمکش اور ظلم کی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے مخالفین اور ناقدین پر مقدمے چلائے گئے ہیں۔ اپنے دور میں شائد لوگ ان مقدموں کو حقائق مانتے تھے، لیکن بعد کے زمانوں نے ان کو غلط ثابت کیا۔ ہم جھٹ سے کسی کو چور، ڈاکو یا نااہل کہتے نہیں تھکتے، اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ فلاں عدالت نے اس شخص کو ایسا قرار دیا ہے۔ اگر واقعی مقدمات اور عدالتی فیصلوں سے یا پھر کسی صاحبِ اقتدار کے کہنے سے کوئی چور، ڈاکو، غدار، ملک دشمن یا غیر دین ہوتا، تو لوگ اب بھی سقراط، گیلیلیو، تھامس مور، نیلسن مینڈیلا، بھگت سنگھ، چی گویرا، گاندھی، باچا خان، ذولفقار علی بھٹو وغیرہ کو ڈاکو، چور، غدار اور ملک دشمن مانتے۔ کیا لوگ اب ایسا سمجھ رہے ہیں؟
ہمیں لگتا ہے گویا تاریخ ہم سے شروع ہوئی ہے یا پھر ہمارے لیڈر سے۔ اس قدر اس پروپیگنڈا نے ہمیں گھٹا دیا ہے۔ اسی طرح نچلی سطح پر کوئی آکر اگر کوئی ہمیں کسی کے خلاف بات کہہ دے، تو ہم جھٹ سے اس پر یقین کرلیتے ہیں۔ اس پر تحقیق اور مزید سوچ تک ہمارا خیال نہیں جاتا کہ ہمارے ذہن کو ڈبوں میں بند کیا گیا ہے۔ کم ازکم سیاست میں تو شک کی گنجائش رکھ لیں۔ اس سے آپ کے ہاں تشدد کا مادہ کم ہوگا، اور ان مغلظات سے بچ جائیں گے جن کا اظہار ہر سیاسی کارکن کر رہا ہے۔ اس کی ایک مثال اسلام آباد میں کہیں ایک افطار دعوت ہوئی ہے اور جس میں موجودہ حکومت کی مخالف سیاسی جماعتیں اکھٹی ہوئی ہیں۔ اس پر وہ گالیاں سننے کو ملتی ہیں کہ شیطان بھی شرما جائے۔
مجھے دکھ اس بات پر زیادہ ہے کہ ہمارے پہاڑی علاقوں (جو اَب بھی جدیدت کے مثبت ثمرات سے کوسوں دور ہیں) میں بھی اس سیاسی اقتدار کی کشمکش اور جدیدت کے سارے منفی ثمرات بڑی تیزی سے پہنچے ہیں۔ ایسے میں دکھ دو چند ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اگر کوئی مباحثہ ہوتا ہے، تو وہ سیاسی کشمکش کا ہوتا ہے۔ ایک اکثریت کے ’’ڈارلنگ‘‘ عمران خان ہیں، تو کئی لوگوں کے ڈارلنگ دوسرے لیڈرز ہیں۔ گالیوں کا ایسا گھمسان کا رن پڑتا ہے کہ توبہ توبہ۔ کسی عورت کو معاف کیا جاتا ہے، نہ مرد کو۔
یوں لگے رہو مُنّو! اپنے مستقبل کا سوچو نہ اپنے والدین اور بڑوں کا۔ آپ کا زمانہ ہے، جسے چاہو پاؤں تلے روند و، ہر اخلاق ہر معیار کو کچل ڈالو، کسی کو بھی معاف نہ کرو، آپ کا زمانہ ہے، آپ ہی نئی فوج ہیں ان سیاسی مداریوں کی، آگے بڑھو، رُکو مت، ہر گالی کو شرماؤ!

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔