طاہرؔ بونیری سے اک ملاقات کی کتھا

ملتان کے ہمارے ایک کرم فرما دوست اسلام آباد میں اک فرم کے مالک ہیں۔ وہ پیر پرست ہیں۔ اُن کا حلقۂ نیابت یورپ اور امریکہ تک بھی پھیلا ہوا ہے۔ اُنہیں ہر سال گوروں کے دیس سے کچھ خصوصی فنڈ بھی ملتا ہے۔ جس سے وہ پاکستان میں مختلف پراجیکٹس، سیمینار اور اسی نوع کے دیگر کام کرتے اور کرواتے رہتے ہیں۔ میرے دوست ہونے کی وجہ سے اُنہیں معلوم ہے کہ مذہبی حوالے سے میرا ہاتھ ہولا ہی ہے۔ اور پیر پرستی سے تو میرا دور دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں، لیکن پھر بھی اپنی محبت کا اظہار کرنے اور کچھ عنایت کرنے کا بہانا ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ کبھی فیصل آباد کے ماموں کانجن، کبھی گوجر خان کے تھاتھی، تو کبھی سوہاوہ کھڑی شریف مزاروں کے تہواروں میں مجھے بھی میلہ ٹھیلا دیکھنے کی دعوت دے دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں وہ اِک پیکیج لے کر پیر بابا بونیر تشریف لائے تھے اور مجھے کہا کہ ’’ہم سوات نہیں آسکیں گے، اس لیے آپ پیر بابا تشریف لے آنا۔ اک چھوٹے سے سیمینار میں ’’تعلیم اور روحانی تعلیم‘‘ کے حوالے سے اگر آپ نے پانچ منٹ کی تقریر نہ بھی کی تب بھی آپ کو آپ کا (رقم والا) لفافہ مل جائے گا۔‘‘ میں ہاں کہنے کے سوا اور کیا کہہ سکتا تھا۔
مقررہ دن سے ایک دن پہلے میں بونیر کی طرف عازمِ سفر ہوگیا۔ اس غرض سے کہ وہاں ہمارے اک ادبی دوست ’’طاہر بونیرے‘‘ بھی پیر بابا (پاچا کلے) ہی میں رہتے ہیں۔ اسی بہانے اُن سے ملاقات بھی ہو جائے گی اور رات کو خوب گپیں شپیں بھی لگالیں گے۔ طاہر بونیری صاحب کو فون پہ آنے کی پیشگی اطلاع دی جاچکی تھی، جو اُنہوں نے بڑی خندہ پیشانی سے قبول بھی کرلی تھی۔ مقررہ دن جب میری فلائنگ کوچ کڑاکڑ کے ٹاپ پہ پہنچی، تو کرنا خدا کا یہ ہوا کہ طاہر بونیری صاحب کال اَٹینڈ نہیں کر رہے۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ اب کیا ہوگا؟ مسلسل رابطے کیے۔ ایس ایم ایس کیے لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ یہاں تک کہ میں ’’جوڑ‘‘ سے بھی آگے نکل گیا۔ بس پیر بابا کے قریب ہی تھا کہ طاہر بونیری کی کال آگئی۔ میری بھی جان میں جان آئی۔ وہ معذرت پہ معذرت کرنے لگ گئے کہ میری خرگوش کی طرح آنکھ لگ گئی تھی۔ اگلے سمے میں ان کی چوکھٹ پہ موجود تھا۔ بڑے تپاک سے ملے۔ میرا بیگ اپنے ہاتھ میں لیا اور بیٹھک کی طرف لے چلے۔ جہاں کچھ سازوسامان پڑا تھا اس لیے ساتھ والے ملحقہ کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ کمرے میں بچوں کے کھلونے، پھول اور تتلیوں کے ڈیزائن تھے۔ کوئی کتاب، رسالہ یا اخبار نہیں تھا۔ البتہ اِک کونے میں رباب ضرور پڑا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ بڑے بیٹے نے چھپا کے یہاں رکھا ہے۔ سرِدست بونیری صاحب پانی کا گلاس ہاتھ میں لیے میرے قریب آئے اور بڑی چاہ سے ’’اپنے ہی ہاتھوں‘‘ مجھے پلانے لگے۔ میں نے معنی خیز انداز میں انہیں دیکھا کہ یہ الفت کر رہے ہیں یا ’’بونیری پَن۔‘‘ تھوڑی دیر بعد پھر اُٹھے اور جیب سے کنگھی نکال کر میرے بالوں میں پھیرنے لگ گئے۔ میں اس بار بھی ’’الفت‘‘ اور ’’سادگی‘‘ کے فرق میں تمیز نہ کرسکا۔ اتنے میں چائے آگئی، جس کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ مَیں نے دو کپ چائے اور چند ایک بسکٹ کھائے، تو تھکاوٹ اور کسالت جاتی رہی۔ غروبِ آفتاب میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔ اُنہوں نے ’’ہوا خوری‘‘ کا کہہ کر میرے دل کی بات کہہ ڈالی۔ ہم جونہی گھر سے نکلے، پچھواڑے اِک بہت ہی خوبصورت پارک، سبزہ، پھول اور فوارے آنکھوں کے رستے دل و جاں کو فرحت اور طراوت پہنچانے کے لیے کافی تھے۔ جس میں غریب بچیوں کو ’’شپیشترے‘‘ کا ساگ توڑتے اور ڈھیریاں بناتے دیکھ کر میرا دل کِرچی کِرچی ہو گیا۔ ہم پارک کی پگڈنڈیاں عبور کر کے آگے کھیتوں کی جانب بڑھ گئے۔
بہار کی آمد آمد تھی۔ ہر طرف شگوفے کھل رہے تھے۔ کلیاں چٹک رہی تھیں۔ کونپلیں انگڑائیاں لے رہی تھیں۔ تا حدِ نگاہ سبزہ ہی سبزہ تھا۔ ہریالی ہی ہریالی تھی۔ اوپر سے بادِ بہاری کے شریر جھونکے الگ سے اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔ نوجوان فٹ بال کھیلنے میں محو تھے۔ میرے بائیں پہلو’’ایلم‘‘ کا تاریخی پہاڑ آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ ذرا دائیں جانب’’دوہ سرے‘‘ پہاڑ کی برفیلی چوٹیاں اپنی وجاہت دکھا رہی تھیں۔ ذرا سا مشرق کی سمت دیکھو، تو ’’سُور غر‘‘ کا خوبصورت پہاڑ اپنے پہلو میں ’’گوکن‘‘ درے کو لیے ہوئے ہے۔ جنوب مغرب کی طرف کوہِ جعفر ہے، تو شمالاً ’’دوکڈہ‘‘ کی پہاڑیاں حدِ نگاہ تک پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ اس جغرافیائی حدود کے بیچوں بیچ ’’پیر بابا‘‘ کا سبز گنبد ہی اس علاقے کا مرکزی مقام ہے۔ جہاں ہر سال ہزاروں، لاکھوں لوگ زیارت کے لیے آتے ہیں۔ عقیدت کے پھول برساتے ہیں اور مرادیں لے کر جاتے ہیں۔ ہم اک لمبا چکر کاٹ کر شام کو بونیری صاحب کے گھر واپس لوٹ آئے۔ اتنے میں شام کا کھانا آگیا۔ کوئی راجپوتوں والا دسترخوان نہیں تھا۔ بڑا سادہ سا اہتمام کیا گیا تھا۔ البتہ بازاری مچھلی کے قتلے ضرور موجود تھے۔ اسی دوران میں، مَیں نے ان کے اجداد کا پوچھا، تو کہنے لگے، ’’ہم بونیر کے نہیں شانگلہ کے ہیں۔ میرے والد ’’لیونو پیر صاحب‘‘ کے مرید تھے اور اُنہی کے حکم سے بونیر آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔‘‘
بونیری صاحب ادب کا بڑا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ پشتو ادبیات کو تو کھنگالتے ہی رہتے ہیں، لیکن اردو ادبیات پہ بھی خوب دسترس رکھتے ہیں۔ وہ موجودہ تعلیمی نظام اور خاص کر مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ ادبی اور سیاسی ماحول سے بھی مطمئن نظر نہیں آرہے تھے۔ دورانِ گفتگو کئی امور زیرِ بحث آئے۔ وہ کافی عرصہ کوئٹہ میں بھی رہے۔ جہاں دو اخبارات کی ایڈیٹری کرتے رہے۔ اپنی یادوں کو سمیٹ کر انہوں نے رپورتاژوں کی کتاب ’’پختانہ بیا پختانہ دی‘‘ لکھی۔ ساتھ ہی اپنی شاعری کی کتاب ’’زڑہ کی د ساتلو سوک دی‘‘ بھی شائع کی۔ آج کل ’’لاچی لونگ‘‘ نامی خطوط کی کتاب کا مسودہ بھی تیار کیے بیٹھے ہیں، جو یقینا ہماری ادبی اور تہذیبی تاریخ کا اک مستند ورثہ ثابت ہوگی۔ باتوں باتوں میں کوئٹہ کے عبدالکریم بریالیـؔ صاحب کو انہوں نے بڑے میٹھے لفظوں میں یاد کیا اور ان سے پکی دوستی کا دعویٰ بھی کیا، لیکن ان کی حال ہی میں آنے والی کتاب ’’ختمِ نبوت‘‘ پر انہوں نے بھر پور تحفظات بھی ظاہر کیے اور کہا کہ ’’سعداللہ جان برقؔ‘‘ قلندر مومند اور سید گوہر وغیرہ چاہے شیعہ، سنی یا قادیانی ہی کیوں نہ ہوں، ہمیں ان کی ادبی خدمات کو دیکھنا چاہیے۔ مذہب، عقیدہ یا ایمان ہر کسی کا اپنا ہوتا ہے۔ گورکی، ٹالسٹائی اور شیکسپئر کون سا مسلمان تھے؟ یا زمانۂ جاہلیت کے امراؤ القیس، متنبی اور دیگر عربی شاعروں وغیرہ کو آج بھی سخت گیر عربی اپنا کلاسک مانتے ہیں اور ان کی ادبی خدمات کو سراہتے ہیں۔ لہٰذا میں اس حوالے سے بریالی صاحب کے مؤقف کی حمایت نہیں کرتا۔‘‘ کافی دیر تک ہماری اسی نوع کی گپیں لگتی رہیں۔ بقیہ رات گزرانے کے لیے وہ مجھے اِک اور حجرے میں لے گئے جو اُن کے محلے ہی میں تھا۔ جہاں سید ہارون الرشید باچا ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ موصوف ایم ایس سی کیمسٹری کے بعد محکمۂ تعلیم میں اپنے فرائض نبھانے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ کیا خوب اور سدا بہار انسان تھے۔ مذہبی گھرانے یعنی سید زادے ہونے کے باوجود بڑے روشن خیال اور سیکولر انسان تھے۔ ساری عمر بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رہا۔ وہ ہیں تو کا کا خیل لیکن دو ڈھائی سو سال سے پیر بابا کی گدی نشینی انہی کے خاندان کے پاس ہے، جنہیں آج بھی سرکاری وظیفہ ملتا ہے۔ ہارون باچا جیسے مہمان نواز اور میٹھے انسان نے ہمیں رات گئے تک ادبی، سیاسی اور تاریخی باتوں سے نہال کیے رکھا اور صبح کا ناشتہ بھی ہمارے ساتھ ہی کیا۔ یوں ڈھیر ساری محبتوں اور یادوں کے ساتھ میں ان دونوں سے رخصت ہو کر ملتان والے دوست کے سیمینار کی جانب بڑھ گیا۔

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔