اک تھا بے لباس بادشاہ

شام کے وقت بادشاہ کے شہر میں آنے کا اعلان کیا گیا۔ آگے آگے فوجی بینڈ دھنیں بجاتا چل رہا تھا اردگرد کئی محافظ تھے جن کے درمیان بادشاہ سلامت چل رہے تھے۔ بادشاہ کو اس حال میں دیکھ کر جو شخص بھی ہنستا اسے بے وقوف سمجھا جاتا تھا، لیکن یہ ایسی کیا بات تھی کہ بادشاہ کو دیکھ کر لوگوں کی ہنسی نکلتی تھی اور وہ بے وقوفوں میں شمار ہوتے تھے۔ دراصل بیوقوف لوگ نہیں بادشاہ اور ان کے وزرا تھے۔
عزیزانِ من، کسی ملک پر ایک ایسا بادشاہ حکومت کرتا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز سے نواز رکھا تھا، سوائے عقلمندی کے۔ اس کی بیوقوفی کی خبر سن کر پڑوسی ملک سے دو درزی بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ کو ایک حیرت انگیز لباس تیار کرکے دیں گے۔ بادشاہ نے پوچھا حیرت انگیز سے کیا مطلب؟ درزیوں نے کہا، بادشاہ سلامت ہم آپ کو ایسا لباس تیار کرکے دیں گے جسے صرف عقلمند دیکھ سکیں گے، بیوقوف نہیں۔ بادشاہ جو خوبصورت کپڑوں کا شوقین تھا، وہ فوراً تیار ہوگیا۔ اس نے درزیوں کے لیے الگ کمرے کا انتظام کیا اور انہیں سونے کے دھاگے کے بہت سے گولے بھی فراہم کیے۔ ان چالاک درزیوں نے سونے کے وہ گولے چھپا دیے اور خالی مشین چلانے لگے، جس کی آوازیں سن کر سب یہی سمجھتے تھے کہ درزی بہت محنت سے کام کررہے ہیں۔ کئی روز گزرنے کے بعد بادشاہ نے اپنا سپہ سالار بھیجا کہ جاؤ اور دیکھو کہ میرا حیرت انگیز لباس کس طرح تیار ہو رہا ہے؟ سپہ سالار درزیوں کے کمرے میں داخل ہوا، تو وہ خالی قینچی اور مشین چلاتے دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہاں تو کپڑے کا نام و نشان تک نہیں، لیکن ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے درزیوں کی بات یاد آگئی کہ ان کپڑوں کو صرف عقلمند ہی دیکھ سکتے ہیں۔ بیوقوف سمجھے جانے کے ڈر سے سپہ سالار خاموش رہ گیا اور درزیوں سے کہنے لگا کہ بھئی، تم تو بہت ہی اچھے کپڑے سی رہے ہو۔ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟ درزیوں نے سونے کے دھاگے طلب کیے جو انہیں دے دیے گئے۔ سپہ سالار نے بادشاہ کو جاکر بتایا کہ عالی جناب، واقعی بہت ہی شان دار کپڑے تیار ہورہے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ کی خوشی مزید بڑھ گئی اور وہ ہر وقت اپنے نئے لباس کے بارے میں سوچنے لگا۔ اب چند دن گزرنے کے بعد بادشاہ نے اپنے وزیر کو بھیجا کہ تم دیکھ کر آؤ۔ وزیر نے بھی وہاں کپڑا تو دور سونے کا وہ دھاگا تک نہیں دیکھا، لیکن اسے بھی درزیوں کی وہ بات یاد آگئی اور خاموش رہا۔ ساتھ ہی بولا کہ تم تو واقعی بہت ہی اچھے کپڑے بنا رہے ہو۔ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟ درزیوں نے مزید دھاگا طلب کیا جو انہیں دے دیا گیا۔ وزیر صاحب نے بھی بادشاہ کو یقین دلایا کہ نہایت ہی خوبصورت کپڑے تیار ہو رہے ہیں۔ بلآخر مقررہ وقت آپہنچا۔ پورے ملک میں اعلان کرا دیا گیا کہ آج شام بادشاہ سلامت اپنے نئے کپڑوں میں پورے ملک کی سیر کریں گے۔ صبح صبح بادشاہ درزیوں کے پاس پہنچا اور اپنے کپڑے طلب کیے۔ ایک درزی خالی تھیلی اُٹھائے ہوئے آیا۔ اس نے بادشاہ کے کپڑے اتروائے اور پھر بادشاہ کے آگے پیچھے خالی ہاتھ گھمانے شروع کر دیے۔ تھوڑی دیر یہ کھیل جاری رکھنے کے بعد بادشاہ سلامت سے کہا گیا کہ اب آپ تیار ہیں۔ بادشاہ کو تو کوئی کپڑا نظر نہیں آیا، لیکن اس نے بھی اپنی عقلمندی کا بھرم رکھتے ہوئے چالاک درزیوں کو بہت ساری دولت دی اور ان کی خوب تعریف کی۔ درزیوں نے بادشاہ سے اجازت طلب کی اور اپنے ملک روانہ ہوگئے۔ بادشاہ اعلان کے مطابق اپنے اس نئے لباس میں شہر کی سیر کو نکلے۔ آخر بادشاہ نے پورے شہر کا چکر کاٹ لیا۔ سب کے سامنے اس کی بے عزتی ہوگئی، لیکن وہ بے چارہ کیا کرتا، کیا اپنے آپ کو بیوقوف کہلواتا؟
عزیزانِ من، آج وطنِ عزیز کی حکمران جماعت اور ان کو حکمران بنانے والے لوگ بالکل اس کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ آئے دن برسرِ اقتدار جماعت اپنی غلط بیانیوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کے سامنے ننگی ہونا تو پسند کرتی ہے، لیکن اپنی نااہلی کا اعتراف کرکے خود کو ’’بیوقوف‘‘ ڈکلیئر کرنے نہیں دے رہی۔ اور وہ لوگ جنہوں نے ان کے سلیکشن کے لیے ووٹ دیے ہیں، وہ بھی ان کی برپا کی ہوئی تباہی کو تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں اور بیوقوف بن کر خود کو دھوکا دیتے ہیں۔ یعنی کپتان کو حکمران بنانے والوں نے کپتان پر صادق اور امین کا لیبل چسپاں کیا ہوا ہے، جس کی وجہ سے بیچارے کارکنون کا کپتان پر ایمان زیادہ پختہ ہوگیا ہے۔ چوں کہ ان کی نظر میں صرف کپتان ہی نجات دہندہ ہے، اسی لیے اگر آج ڈالر اور پیٹرول وغیرہ کی قیمتیں بڑھ کر مہنگائی کا طوفان برپا کر رہی ہیں، تو کارکنوں کی نظر میں یہ تباہی نہیں تبدیلی ہے۔ اگر کپتان پورے ملک کو آئی ایم ایف کی جھولی میں ڈال دے، تو کارکنوں کے مطابق اسی میں ملک کی بقا ہے۔ آج کارکن اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ کپتان ایک ایک کر کے ہر اس چیز سے سبسڈی ختم کر رہا ہے جس میں غریب کی سہولت ہو، حالاں کہ دعویٰ ان کا غربت ختم کرنے کا تھا جب کہ وہ تو غریب کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز اور نام نہاد سستی بازاروں میں دستیاب قلیل مقدار کی اشیا جہاں عام مارکیٹ سے قیمتاً زیادہ ہیں، وہاں معیار بھی ناقص ہے بلکہ جن اشیا مثلاً آٹا، گھی اور چینی کی قیمت میں جو کچھ کمی ہے، وہ عدم دستیاب ہیں۔
آج یو این کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ترقی کی شرح اس سال نیپال اور مالدیپ جیسے ملکوں سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود بیچارے کارکن ایسی امید لگائے بیٹھے ہیں جیسے راکیش روشن کی فلم میں وہ بڑھیا اس امید کے ساتھ جیتی ہے کہ میرے کرن اور ارجن آئیں گے۔ پی ٹی آئی کے کارکن یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ میرے کپتان کے نئے پاکستان میں باہر ملکوں کے لوگ کام کرنے آئیں گے۔ میری ان سے گذارش ہے کہ براہِ کرم آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ’’ایشیا اینڈ دی پیسفک‘‘ کے سالانہ اقتصادی اور سماجی سروے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ بنگلہ دیش کی 7.3 فی صد بھارت کی 7.5 فی صد مالدیپ اور نیپال کی 6.5 فی صد کے مقابلے میں 2019ء میں پاکستان کی جی ڈی پی مجموعی پیداوار کے 4.2 فیصد رہے گی جب کہ 2020ء تک یہ 4 فی صد تک ہوسکتی ہے۔
عزیزانِ من، نفسیات کی لیکچرر کلاس میں داخل ہوئی اور پانی سے بھرا گلاس ہاتھ میں اٹھا کر پوچھا اس کا وزن کتنا ہے؟ کلاس کے ہر طالب علم نے اپنی سمجھ کے مطابق وزن بتایا۔ لیکچرر نے گلاس بدستور ہاتھ میں اٹھائے رکھا اور کہا اگر ایک منٹ تک اٹھائے رکھوں، تو اس کا وزن معمولی ہے۔ ایک گھنٹا اٹھائے رکھوں، تو میرا ہاتھ دُکھنے لگے گا۔ اگر ایک دن اٹھائے رکھوں، تو میرا ہاتھ شل ہو جائے گا جب کہ گلاس اور پانی کا وزن اتنا ہی ہے۔ اس مثال پر کپتان نیازی اور اس کی ٹیم کو غور کرنا چاہیے کہ دنیا کے سامنے خود کو بے پردہ کرنے کی بجائے اپنی نااہلی کا اعتراف کرلیں اور ملک کے چلانے کا یہ بوجھ اپنے ذہن سے اتار لیں، جس کے آپ اہل نہیں۔ کیوں کہ آئندہ دنوں میں یہ بوجھ مزید بھاری ہونے والا ہے۔ اگر ایک گلاس پانی پورے دن اٹھائے رکھنے سے ہاتھ شل ہوسکتا ہے، تو پھر اس پورے ملک کے بوجھ کو سالوں اٹھانے سے آپ کے ذہن اور جسم دونوں شل ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ آپ اس کے اہل نہیں۔

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔