اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ لیلۃ القدر کے متعلق یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ وہ کون سی رات ہے؟ نبیؐ نے جو کچھ بتایا ہے، وہ بس یہ ہے کہ وہ رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے، یعنی وہ رات اکیسویں ہوسکتی ہے بائیسویں نہیں، تئیسویں ہوسکتی ہے چوبیسویں نہیں، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔ وہ آخری عشرے کی طاق رات ہے۔ یہ فرمانے کے بعد اس بات کو بغیر تعین کے چھوڑ دیا گیا کہ وہ کون سی رات ہے؟
عام طور پر لوگ ستائیسویں رمضان کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ لیلۃ القدر ہے لیکن یہ بات قطعیت کے ساتھ نہیں کی جاسکتی کہ رمضان کی ستائیسویں شب ہی لیلۃ القدر ہے۔ البتہ جو بات تعین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے، وہ فقط یہ ہے کہ وہ آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے۔
لیلۃ القدر کا قطعی طور پر تعین نہ کرنے میں یہ حکمت کار فرما نظر آتی ہے کہ آدمی ہر طاق رات میں اس امید پر اللہ کے حضور کھڑا ہو کر عبادت کرے کہ شائد یہی لیلۃ القدر ہو۔ لیلۃ القدر اگر اس نے پالی، تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ جس چیز کا طالب تھا، وہ اسے مل گئی۔ اس کے بعد اس نے چند مزید راتیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاریں، تو وہ اس کی نیکی میں مزید اضافے کی مؤجب بنیں گی۔
اس مقام پر ایک اور بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ چوں کہ ساری دنیا میں رمضان کی تاریخیں ایک نہیں ہوتیں اور ان میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے، اس لیے یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ کس آدمی کو واقعی وہ اصل رات میسر آگئی ہے۔ اس کے لیے ایک طالبِ صادق کو ہر رمضان میں اسے تلاش کرنا چاہیے۔
رمضان کو جو آخری عشرہ اعتکاف کے لیے مقرر کیا گیا ہے، اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اعتکاف کا ثواب آدمی کو الگ ملے اور چوں کہ اعتکاف کی حالت میں اس کی تمام طاق راتیں عبادت میں گزریں گی، اس لیے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ اسے ان میں کبھی نہ کبھی وہ رات بھی لازماً مل جائے گی۔
بعض لوگ اپنی جگہ لیلۃ القدر کی تلاش کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ رات کو باہر نکل کر یہ دیکھا جائے کہ فضا میں کوئی ایسی علامت پائی جاتی ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ قدر کی رات ہے۔ فضا میں کوئی ایسا نور برس رہا ہے جس سے اس کا لیلۃ القدر ہونا ثابت ہوجائے، لیکن دراصل یہ طرزِ فکر مطابقِ حقیقت نہیں ہے۔ بے شک نور برستا ہے، لیکن یہ نور تو پورے رمضان میں اور رمضان کی ہر رات میں برستا ہے۔ البتہ اس کے لیے وہ آنکھیں چاہئیں جو اس کو دیکھ سکیں۔ یہ نور درحقیقت آپ کی عبادت کے اندر برستا ہے۔ یہ نور، خدا کی رضا طلبی کے اندر آپ کے انہماک میں، بھلائیوں کے لیے آپ کے ذوق و شوق میں اور عبادات کے لیے آپ کے خلوص و اہتمام میں اور فی الجملہ آپ کے ایک ایک فعل میں برستا ہے۔
(درسِ مشکوٰۃ سے انتخاب رمضان کی برکات از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، صفحہ نمبر 14 اور 15 سے انتخاب)