سنِ شعور میں جتنی بہاریں ایک مسلمان کو دیکھنے کو ملتی ہیں، اتنے ہی رمضان کے مہینوں کا تجربہ بھی اسے ملتا ہے۔ بہاروں سے اس لیے مماثلت کی کہ یہ بھی تو نیکیوں کا موسم بہار ہی ہے، لیکن جس طرح بہار کا موسم ہوتے ہوئے بھی انسان کے اندر کا موسم اچھا نہ ہو، تو مزہ نہیں آتا۔ ٹھیک اسی طرح اگر رمضان کی آمد کے وقت دل کے حالات اچھے نہ ہوں، تو نیکیوں کے اس موسمِ بہار سے بھی لطف نہیں اٹھایا جا سکتا۔
نبی کریمؐ کی ایک خوبصورت حدیث اس حوالے سے وارد ہے جس کا مفہوم کچھ یہ ہے کہ ’’بہت سے ایسے روزہ دار ہیں جنہیں اپنے روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں ملتا اور بہت سے ایسے راتوں کو قیام (تراویح، تہجد) کرنے والے ایسے ہیں جنہیں تھکان کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔‘‘ یعنی محض خود کو کھانے پینے اور جنسی خواہش سے دور رکھنا اور راتوں کو خود کو تھکانا پوری بات نہیں بلکہ اس سارے مشق کے پیچھے ایک گہری بات اور فلسفہ پنہاں ہے جس کو سمجھے بغیر اس سارے عمل میں روح نہیں ڈالی جاسکتی۔
امام غزالی ؒ نے اس حوالے سے بہت خوبصورت توجیہہ کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ شیطان کا سب سے کارگر حربہ انسانی خواہشات کو ابھار کر اس کے ذریعے حملہ آور ہونا ہوتا ہے۔ اب یہ خواہشات (کھانا پینا اور شہوات) جتنی کچھ منھ زور ہوں گی اور جتنا کچھ انسان اس کے آگے بے بس ہوگا اتنا ہی شیطان کے دھوکے میں آسانی سے گرفتار ہوگا۔ اور اگر اس کے برعکس یہ خواہشات جتنی انسان کے قابو میں ہوں گی اتنی ہی انسان کے بچنے کے امکانات قوی ہوں گے۔ اب روزہ اسی عمل کے مشق کو کہتے ہیں جسے ’’ضبطِ نفس‘‘ کہا جاتا ہے۔
روزے کے متعلق ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ ابنِ آدم کے ہر عمل کا بدلہ معلوم ہے، لیکن روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اجر میں ہی دوں گا۔
اگر روزہ انسان اللہ کے لیے رکھتا ہے، تو کیا باقی عبادات (نماز، حج اور انفاق فی سبیل اللہ) اللہ کے لیے نہیں ہوتیں؟ اب روزے کے متعلق اتنا خصوصی فرمان اور مرتبہ امام غزالیؒ کے تئیں اس لیے ہے کہ ایک تو اس میں ریاکاری کا شائبہ تک نہیں آتا کہ مخفی اور پوشیدہ عبادت ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ روزہ رکھ کر اور اپنی خواہشات (کھانا، پینا، جنسی خواہش)کو لگام ڈال کر اصل میں ابنِ آدم شیطان کو ہرانے کا سامان کرتا ہے، اور یوں اُس لعین نے اللہ تعالیٰ کو جو چیلنج دیا ہے اس میں اس کی شکست کا سامان ہوتا ہے۔ یعنی اس ضبطِ نفس کی بنیاد پر ہی اسلام کا بول بالا ہوتا ہے۔
ضبطِ نفس کا یہ عمل تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا جب تک ہم پنے اعضا و جوارح کو بھی اس عمل کا ہمکار نہ بنائیں۔ اپنی آنکھوں کو مکروہ اور حرام چیزوں سے باز رکھنا دراصل آنکھوں کا روزہ بنتا ہے۔ اپنی زبان کو غیبت، گالی، چغلی اور بہتان تراشی سے باز رکھنا دراصل زبان کا روزہ بنتا ہے۔ اور ان چیزوں کے سننے سے اپنے کانوں کو دور رکھنا دراصل کانوں کا روزہ بنتا ہے۔
شیطان جیسے دشمن سے بہرحال ہروقت چوکناّ ہی رہنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی واردات کے لیے کوئی نہ کوئی موقعہ ڈھونڈ ہی نکال لاتا ہے۔ امامِ غزالیؒ نے اس حوالے سے افطاری کی مثال پر تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو ضبطِ نفس اصل میں ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بالکل بھی حاصل نہ ہوپائے گا، اگر ہم افطاری کے وقت ندیدے پن اور بسیار خوری سے خود کو باز نہ رکھیں۔ افطار میں خود سے زیادہ دوسروں یعنی گھر والوں، ہمسایوں، رشتہ داروں اور مسکینوں کو ترجیح دینا ہی اس عمل کی تکمیل کا باعث بنے گا، اور شیطان کی مکمل شکست پر منتج ہوگا۔ باقی ہمارے دور میں تو شیطان کو دوسرے بہت سے معاونین کا بھی یارا ہے جن میں سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، راتوں کو بازاروں کی غیر معمولی چکا چوند دراصل شیطان کے نفوذ کے عمل کو آسان بناتی ہے، لہٰذا اس حوالے ہمیں اور زیادہ حساس ہونے کی ضرورت ہے۔ بہرحال پورا مہینا امید و بیم کی ملی جلی کیفیت میں گزارنا ہی اصل میں ہمارے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے کہ ہمیں یہ دھڑکا بھی ہر وقت لگا رہے کہ اس قیمتی مہینے کے برکات سمیٹنے سے کہیں محروم نہ رہ جائیں اور اس امید کا دامن بھی تھامے رہیں کہ یہی رمضان ہمارے لیے اللہ کی رضا کا باعث بھی بنے گا۔
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔