اس کی روشن آنکھیں اور پھول جیسے کھلتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کسے گمان گزر سکتا تھا کہ وہ بیمار ہے۔ میں جب بھی اُسے وارڈ میں دیکھتا، مسکان زیرِ لبی کے ساتھ وہ میرا استقبال کرتی۔ گلاس پینٹنگ میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ جتنے بھی پیسے کماتی، اس کا بیشتر حصہ اپنے علاج پر خرچ کرنا اس کی مجبوری ہوچکی تھی۔ اس کا نام مہوش تھا۔ 25 یا 26 کے پیٹے میں تھی، مگر خون کے موذی مرض (تھیلیسیمیا) نے اس کی جسمانی ساخت پر اثر کر رکھا تھا۔ 26 سال جم کر لڑی، مگر کیا کیا جائے کہ تھیلیسیمیا ہے ہی ایسی بیماری جس کے آگے بالآخر ہار ماننا ہی پڑتی ہے۔
یہ اکیلے مہوش کی کہانی نہیں بلکہ صوبہ خیبرپختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن میں ہزاروں پھول جیسے معصوم بچے خون کی اسی موذی بیماری سے متاثر ہیں، جب کہ میری جنم بھومی سوات میں اس بیماری سے متاثر بچوں کی تعداد تقریباً 3 ہزار ہے۔
بلاشبہ ملاکنڈ ڈویژن اور ضلع سوات میں صوبے کے دیگر ڈویژن اور اضلاع کے مقابلے میں یہ شرح زیادہ ہے۔ یہ خطرناک ترین صورتحال اس وقت مزید پریشان کُن بن جاتی ہے جب ملاکنڈ ڈویژن میں بالعموم اور ضلع سوات میں بالخصوص حکومتی سطح پر کوئی خاطر خواہ اقدامات دیکھنے کو نہیں ملتے ۔
آئیے سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ تھیلیسیمیا ہے کیا چیز؟ اور کیا واقعی بیرونی حملہ آور اسے اپنے ساتھ لائے تھے ؟
اس حوالے سے ڈاکٹر فوزیہ سعید اپنے ایک تحقیقی مقالے ’’تھیلیسیمیا سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟‘‘ میں لکھتی ہیں کہ ’’تھیلیسیمیا خون کے اس مرض کو کہتے ہیں جس میں معیاری خون ناکافی بنتا ہے۔ یہ خون میں ہیموگلوبن کا پیدائشی نقص ہے۔ اس کی 3 اقسام ہیں:
پہلی،تھیلیسیمیا مائنر۔
دوسری،تھیلیسیمیا انٹر میڈیا۔
اور تیسری،تھیلیسیمیا میجر۔

سوات میں تھیلسیمیا سے متاثرہ نونہالوں کی تعداد تقریباً 3000 ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

تھیلیسیمیا مائنر:۔ ڈاکٹر فوزیہ سعید تھیلیسیمیا مائنر کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ ’’جو لوگ والدین میں سے ایک سے نارمل اور ایک سے ابنارمل جین حاصل کرتے ہیں، ان کو تھیلیسیمیا مائنر کہتے ہیں۔ ان میں بیماری کی کوئی علامت نہیں ہوتی، لیکن یہ ابنارمل جین اپنے بچے کو منتقل کرسکتے ہیں۔‘‘
تھیلیسیمیا انٹر میڈیا:۔ اس کے حوالے سے ڈاکٹر فوزیہ رقم کرتی ہیں کہ ’’یہ تھیلیسیمیا کی درمیانی قسم ہے، جس میں ہیموگلوبن 7 سے G9 تک رہتی ہے اور تھیلیسیمیا میجر کے مقابلے میں اس میں مریض کو خون لگوانے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔ تاہم اس میں سائیڈ افکیٹس آسکتے ہیں اور پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔‘‘
تھیلیسیمیا میجر:۔ تھیلیسیمیا میجر کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبہ لکھتی ہیں کہ ’’یہ خون کی خطرناک بیماری ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریض کو بروقت خون نہ دیا جائے، تو اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔‘‘
تھیلیسیمیا کی تاریخ کیا ہے؟
تھیلیسیمیا کی تاریخ سکندرِ اعظم سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بیماری ہرگز خیبرپختونخوا، ملاکنڈ ڈویژن یا سوات کی اپنی بیماری نہیں ہے۔ اس بارے میں الفجر فاؤنڈیشن سوات (تھیلیسیمیا سینٹر) کے ایڈمنسٹریٹر رحمان علی ساحل کہتے ہیں کہ ’’سکندر اعظم اسے جنوبی ایشیا پر حملہ آور ہوتے وقت سیکڑوں سال پہلے اپنے ساتھ یونان سے لائے تھے ۔‘‘
رحمان علی ساحل کی اس بات پر مہرِ تصدیق ڈاکٹر اندرولا الیفتھیریو اپنی انگریزی کتاب میں ثبت کرتے ہیں جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر جویریہ منان ’’جانیے تھیلیسیمیا‘‘ کے صفحہ نمبر 8 پر کچھ اس انداز میں کرتی ہیں کہ ’’تھیلیسیمیا ایک یونانی لفظ ’تھیلس‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب سمندر ہے۔ چوں کہ یہ بحیرۂ روم کے ارد گرد پایا جاتا تھا اور امریکی ماہرِ اطفال تھامس کولی نے ڈاکٹر پرل لی کے ساتھ مل کر پہلی بار 1927ء میں اس کی خصوصیات بیان کیں جو اٹلی کے مریضوں میں مشاہدہ کی گئیں۔‘‘

یہ ایک بیگ خون تھیلسیمیا سے متاثرہ نونہالوں کی زندگی ہے۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

مذکورہ کتاب کے صفحہ 118 پر درج ہے کہ ’’آغاز میں تھیلیسیمیا ایک خطے کی بیماری سمجھی جاتی تھی، لیکن اب یہ دنیا کے ہر خطے میں موجود ہے۔ یہ جنوب یورپ میں پرتگال سے اسپین، یونان اور وسطی یورپ کے علاوہ روس کے کچھ علاقوں میں بھی موجود ہے۔ وسطی ایشیا میں یہ ایران، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا اور شمالی چین کے علاوہ افریقہ کے جنوبی ساحل اور جنوبی امریکہ میں بھی موجود ہے۔‘‘
حوصلہ افزا بات کتاب کے صفحہ 119 پر کچھ یوں درج ہے: ’’اٹلی، یونان اور سائپرس جیسے ممالک نے کامیاب قومی روک تھام کے منصوبوں سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ تھیلیسیمیا میجر پر قابو پایا جاسکتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ والدین سے جینز کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ بیماری مریض سے انتقالِ خون، ہوا، پانی، جسمانی یا جنسی تعلق سے منتقل نہیں ہوسکتی اور نہ خوراک کی کمی یا طبی بیماری سے۔ اس حوالے سے رحمان علی ساحل کہتے ہیں کہ ’’اگر ماں باپ میں سے کسی ایک کو تھیلیسیمیا مائنر ہو، تو بچے کو بھی تھیلیسیمیا مائنر ہی ہوگا۔ اگر خدا نخواستہ ماں باپ دونوں کو تھیلیسیمیا مائنر ہو، تو ان کے ملاپ سے جنم لینے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر ہوگا۔ اس لیے ضروری بات یہ ہے کہ اگر خاندان کے اندر شادی ہونے جا رہی ہو، تو لڑکا لڑکی دونوں کے ٹیسٹ کرائے جائیں۔ اگر مائنر بیماری دونوں میں پائی جائے، تو شادی روک دی جائے۔ اس طرح باآسانی تھیلیسیمیا کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔
پورے مالاکنڈ ڈویژن کی لاکھوں آبادی اور تقریباً 6 ہزار مریضوں کے واحد تھیلیسیمیا سینٹر الفجر فاؤنڈیشن کے کوآرڈی نیٹر وجاہت علی کے بقول تھیلیسیمیا کی بیماری پورے ملک میں سب سے زیادہ پشتون بیلٹ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’پاکستان میں اس وقت 80 ہزار سے زائد بچے تھیلیسیمیا سے متاثر ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وہ علاقے جہاں پشتون زیادہ تعداد میں آباد ہیں اور وہ خاندان کے اندر شادیوں کو ترجیح دیتے ہیں، ان کی نسل میں تھیلیسیمیا کی شرح زیادہ ہے۔ اس موذی مرض کا راستہ روکنے کے لیے سب سے پہلے یہ کرنا ہوگا کہ خاندان کے اندر ہونے والی شادیوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔ اگر ایسا کرنا کچھ خاندانوں کے لیے مشکل ہو، تو پھر چاہیے کہ شادی کے بندھن میں بندھنے سے پہلے لڑکا اور لڑکی دونوں کے ٹیسٹ کرائے جائیں۔‘‘
اگر بدقسمتی سے دو کیرئرز کی شادی ہو بھی جائے اور ان کے ملاپ سے حمل ٹھہر جائے، تو اس صورت میں اسلامی تعلیمات کیا حل بتاتی ہیں؟ خالد بن ولید مسجد رحیم آباد مینگورہ کے خطیب مولانا ہارون رشید سے جب اس حوالہ سے بات کی گئی، تو ان کا کہنا تھا کہ اسلام دینِ فطرت ہے۔ یہ انسانوں کے لیے آسانی چاہتا ہے اور کسی کو بھی تکلیف میں مبتلا دیکھنا نہیں چاہتا۔ ’’تمام علما اس بات پر متفق ہیں کہ 120 دن سے پہلے اگر پتا چل جائے کہ بچے کو کوئی موذی بیماری لاحق ہے، تو حمل کو ضائع کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالہ سے جامعہ بنوریہ ٹاؤن کراچی کا باقاعدہ طور پر فتویٰ موجود ہے۔ شیخ سلیم اللہ خان صاحب نے بخاری شریف کی شرح ’’کشف الباری‘‘ میں اس حوالہ سے مفصل روشنی ڈالی ہے۔‘‘

مینگورہ شہر میں تھیلسیمیا کے عالمی دن کے موقعہ پر آگاہی واک کا منظر۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

قارئین کرام! تھیلیسیمیا کے ماہرین کے مطابق اگر بیماری کا علاج نہیں ہے، تو ہم سب اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ اس کے حوالے سے آگاہی مہمات چلائیں، شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی دونوں کے ٹیسٹ کروائیں اور سب سے بڑھ کر خاندان کے اندر شادیوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ تب کہیں جاکر ہم اس موذی مرض کے گرد دائرہ ڈالنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ شائد کوئی چارہ نہیں۔ (بشکریہ: ڈان اردو سروس)

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔