علالت (بیماری) کے معاملے میں مکاتب کا اجماع نہیں۔
جعفری کہتے ہیں کہ روزے اُس صورت میں جائز نہیں جب یہ بیماری یا اُس میں شدت پیدا کرنے، تکلیف یا تن درستی میں تاخیرکا باعث بنیں۔ کیوں کہ بیماری ضرررساں (ضرار) ہے اور ضرر پہنچانا ناجائز ہے۔ نیز، بطورِ رسمِ عبادت روزے رکھنا بھی ممنوع ہے۔ چناں چہ اگر کوئی شخص ایسی حالت میں روزے رکھے، تو یہ روزہ صحیح نہیں ہوگا۔ بیماری یا اُس میں بگاڑ کا مؤجب بن جانے کا امکان ہی روزے سے اجتناب کی موزوں وجہ ہے۔ بہت زیادہ کمزوری کے عالم میں روزہ رکھنا تبھی جائز ہے جب اس کی سختی برداشت کرنے کی ہمت ہو۔
حنفی، حنبلی، شافعی اور مالکی مکاتب کہتے ہیں کہ صائم (روزہ دار) شخص اگر بیمار پڑ جائے، یا اُسے بیماری کے بگڑنے یا صحت یابی میں تاخیر کا خدشہ ہو، تو وہ روزہ چھوڑنے کی آپشن رکھتا ہے۔ اُس شخص پر روزہ فرض نہیں ہوگا۔ ایسی صورتحال میں رعایت موجود ہے، لیکن اگر موت یا غشی کا امکان ہو، تو روزہ نہ رکھنا فرض ہوجاتا ہے اور اُس کا روزہ جائز نہیں رہتا۔
(’’اسلامی شریعت کا انسائیکلو پیڈیا‘‘ از لیلہ بختیار، ترجمہ یاسر جواد مطبوعہ ’’نگارشات‘‘، پہلی اشاعت 2008ء، صفحہ نمبر 129 سے انتخاب)