خدا گواہ ہے کہ جب بھی کسی کی نثر کی کتاب دیکھتا ہوں، خواہ وہ جیسی بھی ہو اور جس موضوع پہ بھی ہو، خوش ہوجاتا ہوں اور پھر اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ خفا اُس وقت ہوتا ہوں جب کسی کی شاعری کی کتاب دیکھتا ہوں۔ پڑھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آخر کب تک بندہ ایک ہی بات سنے۔ اور شاعری میں بس ایک ہی بات کے علاوہ میں نے کبھی دوسری بات نہیں سنی۔ بس وہی ’’پوندانے‘‘ کا قصہ ہے جو جاری ہے۔
ایک دفعہ ایک شاعر کے ساتھ میری بحث چھڑ گئی۔ طعنہ دیتے ہوئے کہنے لگا: ’’آپ کی اتنی عمر نہیں جتنی میں نے پشتو کی خدمت کی ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’خدمت! بس شاعری ہی تو کی ہے نا آپ نے۔ یہ اپنی شاعری ذرا اس سے ہٹایئے، دیکھتے ہیں کہ پشتو میں کیا کمی آتی ہے!‘‘
اصل بات یہ ہے کہ شاعری جب دل سے نکلتی ہے، تو سیدھا دل میں کھبتی بھی ہے، لیکن ایسی شاعری بہت کم ہے۔ اس لیے کہ ایسی شاعری زخمی دل، زخمی جگر اور دُکھ بھرا احساس مانگتی ہے۔ یہ باقی شاعری جو زور زبردستی کی جاتی ہے، یہ زور زبردستی ہی دلوں میں گھسائی جاتی ہے جو بھوسا ہوا میں اڑانے والی بات ہے۔
پشتو میں نثر کی بہت کمی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے نت نئی اختراعات کی ضرورت ہے۔ شاعری تن آسانی کا کام ہے، جب کہ نثر جگر کوشی کا۔ ہم نے تن آسانی بہت کرلی۔ اب جگر کوشی کی ضرورت ہے۔ نثر لکھنا تھوڑا مشکل کام ہے۔ یہ اس لیے مشکل کام ہے کہ تم نے اپنے پڑھنے والوں کو اپنی بات منوانی ہے۔ انہیں اپنے ساتھ متفق کرنا ہے۔ چاہے نثر، مِزاح کی ہو یا سنجیدہ لیکن اس میں ایک معقولیت ضروری ہوتی ہے۔ اور معقولیت کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقل کے لیے علم لازمی ہے۔ اور علم کے لیے محنت اور کوشش درکار ہوتی ہے۔ علم صرف وہ نہیں جو موٹی موٹی کتابوں میں ہوتا ہے، بلکہ یہ معاشرہ، یہ حالات اور یہ زندگی خود علم کا ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔ انسان خود ایک کتاب ہے۔ ہر اک واقعہ اک سبق ہے، اور زندگی خود ایک بڑی جامعہ یونیورسٹی ہی تو ہے، بلکہ بڑی مشکل یونیورسٹی ہے۔ اس لیے کہ نالائق اس میں بڑی سخت مار کھاتے ہیں۔ سزائیں اور ایذائیں پاتے ہیں اور نقل سے پاس ہونے کا اس میں کوئی موقع ہی نہیں ہوتا۔
اگر کوئی کہتا ہے کہ نثر کے لیے علم کی ضرورت نہیں ہے، تو وہ غلطی پر ہے۔ نثر صرف وہی شخص لکھ سکتا ہے، جس کے پاس مکتبی علم ہو، جو زندگی کے ہر سبق اور ہر کتاب سے با خبر ہو۔
اس کے مقابلے میں شاعری کے لیے کسی علم، دلیل یا ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تم اس میں سب کچھ کہہ سکتے ہو، بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے۔ مثلاً ’’رات کو تیرے ہجر میں، مَیں نے جگر کے تکے بھون کر کھائے‘‘، ’’رات میں چاند پہ گیا اور اُسے کہا کہ اپنی بہن کو سمجھاؤ کہ میرے دل کے ساتھ نہ کھیلے‘‘، ’’میں زلفوں کے جنگل میں گم ہوگیا اور پھر بازیاب ہوگیا‘‘، ’’رات کو مَیں نے سارے تارے اُتارے اور سب کو خوب مارا پیٹا پھر تمہارا ہجر آیا اور میرا گلا دبا کر اُس نے مجھے مار دیا‘‘، ’’تیرے فراق نے رات کو میرے دل پر خودکُش حملہ کیا اور لاشوں کے ڈھیر لگا گیا اور پھر جب میں نے تمہیں دیکھا، تو میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا‘‘، ’’تمہاری آنکھیں کلاشنکوف ہیں، زلفیں زنجیریں، رخسار ثمر قند کے سیب، ٹھوڑی قندہار کا انار، ہونٹ شہد، دانت موتی، ہاتھ سفید تلواریں، مہندی میرے دل کا خون، پلکیں یہ ہیں اور بھنویں وہ……‘‘
آج کل تھوڑی تبدیلی بھی آگئی ہے۔ ہر شاعر نے پیٹھ پر اسلحہ باندھ رکھا ہے اور امن لانا چاہتا ہے۔ گھر میں اُردو بولتا ہے۔ بچے انگریزی سکولوں میں پڑھتے ہیں اور یہ پشتو کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ پشتو کی بے اتفاقی، بے ننگی اور بے غیرتی کا موضوع تو کہیں گیا نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی باتوں کے لیے کسی قسم کے علم، دلیل یا ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کوئی مانے یا نہ مانے میں نے کہہ دیا اور کہتا رہوں گا۔
ہمارے اکثر بڑے نام نہاد نام، بڑی پگ اور بڑی پوشاک والے ’’علامے‘‘ پہلے کسی ادارہ (تنظیم) میں بھرتی ہوتے ہیں۔ پھر اس کے بعد لکھاری، شاعر، دانشور اور باقاعدہ علامہ بن جاتے ہیں۔ اسی لیے تو جلد ہی مرکھپ جاتے ہیں۔
حالاں کہ باقی ملکوں میں پہلے کوئی ماہر بنتا ہے۔ پھر وہ کسی ادارے (تنظیم) میں آتا ہے اور پھر اپنے خیالات، نظریات اور رجحانات کا پر چار کرتا ہے۔ فارسی کے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ: ’’مشک آں است کہ خود ببوید ، نہ کہ عطار بگوید۔‘‘
یعنی ’’مشک وہ ہے جو اپنی صفت خود خوشبو کی شکل میں کرے۔ اگر اس میں عطار (دکان دار) بیس گھنٹے تقریر بھی کرے، تو اس کی تقریر کوئی معنی نہیں رکھتی۔‘‘
قارئین، یہ تھے سعد اللہ جان برقؔ جنہوں نے یہ مضمون سید فرید اللہ شاہ حساس کی کتاب ’’گڈو کے اوخ‘‘ کی تقریظ میں لکھا تھا۔ مجھے اچھا لگا، میں نے پشتو سے اردو میں ترجمہ کرکے آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
قتیل شفائی کا شعر ہے کہ:
ہماری بات کا صاحب برا نہ مانئے گا
نہیں کسی سے عداوت یقین جانئے گا

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔