معمارِ سوات، والئی سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب نے مینگورہ شہر اور سوات کی سڑکیں اُس وقت موجود پانچ تا دس گاڑیوں کے لیے تعمیر کی تھیں۔ اگر والئی سوات کو مستقبل میں سوات اور مینگورہ شہر کی آبادی، گاڑیوں کی تعداد، نان کسٹم پےڈ گاڑیوں، کٹ گاڑیوں، قانونی و غیر قانونی رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے بارے میں علم ہوتا، ساتھ انہیں آنے والی لاقانونیت کا اندازہ ہوتا، تو یقینا وہ مینگورہ شہر کی سڑکیں اسلام آباد کی شاہراہِ دستور سے بڑی اور موٹر ویز کی طرز پر تعمیر کرتے۔
قارئین، سوات کے مرکزی شہر مینگورہ اور باقی شہروں میں اس وقت ٹریفک کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ ان سڑکوں پر اب گاڑیوں کا گزرنا تو کیا پیدل چلنے والوں کا گزرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سوات میں لاقانونیت عام اک سی بات ہے۔ ٹریفک کے حوالے سے تو یہاں قانون کی دھجیاں اڑانا معمولات میں شامل ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج مینگورہ شہر اور پورے سوات کا سب سے بڑا مسئلہ گاڑیوں اور خاص کر غیر قانونی گاڑیوں میں روز بروز اضافہ ہی ہے۔ پاک فوج اور انتظامیہ نے کچھ عرصہ پہلے نان کسٹم پےڈ گاڑیوں کی پہچان کے لیے ان کو عارضی کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹ فراہم کیے تھے اور ان کا کمپوٹرائزڈ ڈیٹا بھی اکھٹا کیا تھا۔ اس سکیم کے دوران میں کچھ ایک لاکھ سے اوپر گاڑیوں نے مذکورہ مفت رجسٹریشن کی۔ اب ستم یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں نان کسٹم پےڈ گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ کے آج بھی سوات کی سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہیں۔ پاٹا کے خاتمہ کے بعد حکومت نے ملاکنڈ ڈویژن کو پانچ سال کے لیے کسٹم اور انکم ٹیکس سے مستثنا قرار دیا تھا جس کی وجہ سے روزانہ چمن اور تور خم کے راستے افغانستان سے بڑی تعداد میں یہی نان کسٹم پےڈ گاڑیاں سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے دوسرے اضلاع میں آرام سے پہنچائی جاتی ہیں۔ طورخم سے آنے والی گاڑیاں پشاور، مردان یا چارسدہ سے ہوکر یہاں پہنچتی ہیں، اور چمن سے یہ کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، کوہاٹ، پشاور اور مردان کے راستے سوات آرام سے پہنچا دی جاتی ہیں۔ نان کسٹم پےڈ گاڑیاں سمگل کرنے والوں کے مطابق وہ ان راستوں پر قانون نافذ کرنے والے بعض اداروں اور خاص کر محکمۂ ایکسائز کو طے شدہ فارمولے کے تحت رشوت فراہم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے سمگلروں کو گاڑیاں پہنچانے کے لیے کھلی چوٹ دی گئی ہے۔
اس طرح مینگورہ شہر میں ہزاروں کی تعداد میں رکشے موجود ہیں جن میں اکثریت ’’ٹو اسٹروک‘‘ کی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آلودگی پھیلانے کی وجہ سے ملک بھر میں ’’ٹو اسٹروک‘‘ رکشوں پر مکمل پابندی لگائی ہے، لیکن مذکورہ حکم کے باجود سوات کی سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں ذکرشدہ ’’ٹو اسٹروک‘‘ رکشے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ پولیس کے مطابق جب ان کے خلاف کارروائی شروع کی جاتی ہے، تو منتخب اراکینِ اسمبلی ان رکشہ ڈرائیوروں کو اپنا ’’ووٹ بنک‘‘ کہہ کر پولیس کو ان کے خلاف قانونی کارروائی سے منع کرتے ہیں۔
رکشوں سے متعلق مسئلہ کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ سوات میں دوسرے اضلاع سے خاندانوں کی نقلِ مکانی سال بھر ہوتی رہتی ہے۔ باقی اضلاع سے آنے والے افراد کرایہ کا گھر لے کر سب سے پہلے قسطوں پر رکشہ خریدتے ہیں۔ ماہانہ دس ہزار روپے کے عوض حاصل کیے جانے والے رکشہ کو چلا کر اس کی قسط ادا کرتے ہیں اور اپنے خاندان کا پیٹ بھی پالتے ہیں۔ سوات کے رکشہ ڈرائیوروں میں سے دس فی صد کے پاس بھی ’’ڈرائیونگ لائسنس‘‘ نہیں ہوگا۔ اس طرح پچاس فی صد سے زائد رکشے کم سن ڈرائیور چلاتے ہیں جن کا شناختی کارڈ بھی ابھی نہیں بنا ہوتا، تو ٹریفک کا تو یہی حال ہونا ہے۔
قارئین، ٹریفک کے مسئلہ میں برابر کا حصہ موٹر سائیکل چلانے والے بھی ڈالتے ہیں۔ مینگورہ شہر اور سوات کے دیگر علاقوں میں ماہانہ قسطوں پر موٹر سائیکل دینے کا کاروبار خوب چمک رہا ہے، جس کی وجہ سے سیکڑوں کی تعداد میں کم سن لڑکوں نے انہیں قسطوں پر حاصل کیا ہوا ہے۔ فلموں سے متاثر یہ بچے تیز رفتاری کرتے ہیں۔ یوں آئے روز موٹر سائیکل پر کم سنی اور تیز رفتاری کی وجہ سے حادثات بھی اخباروں میں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔
سوات کی سب سے مصروف شاہراہ مینگورہ؍ سیدوشریف روڈ پر ڈویژن کے دو بڑے سرکاری، ایک درجن سے زائد نجی ہسپتال، درجنوں کی تعداد میں سرکاری و نجی تعلیمی ادارے اور تمام سرکاری دفاتر موجود ہیں۔ اتوار کے علاوہ ہفتہ کے باقی چھے دن یہ دو کلومیٹر کا فاصلہ لوگ گاڑی میں بیس منٹ سے لے کر ایک گھنٹا تک میں طے کرتے ہیں۔ سیدو شریف شاہراہ کی طرح مینگورہ شہر کی باقی سڑکوں کی صورتحال بھی اسی طرح ہے، جس پر صبح سے لے کر رات گئے تک ہر وقت ٹریفک جام رہتی ہے۔ اکثر اوقات باقی علاقوں سے ایمبولینس میں ہسپتال لائے جانے والے مریض ٹریفک جام کی وجہ سے بروقت ہسپتال نہیں پہنچ پاتے اور راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔
قارئین، مینگورہ شہر میں غیر قانونی گاڑیوں کے علاوہ ہر بازار میں تجاوزات کی بھر مار بھی ٹریفک میں خلل ڈالنے کی وجہ ہیں۔ ان تجاوزات کی سے شہر کی سڑکیں سکڑ کر رہ گئی ہیں۔ رہی سہی کسر ہتھ ریڑھی والوں نے پوری کر دی ہے، جن کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔
انتظامیہ کی کمزوری ملاحظہ ہو کہ بار بار ڈےڈ لائن کے باجود جنرل بس سٹینڈ اور سبزی منڈی کو شہر کے وسط سے تاحال نہیں نکالا جاسکا، جس کی وجہ سے بھی شہر پر ٹریفک کا اچھا خاصا دباؤ رہتا ہے۔ شہر میں بڑی گاڑیوں کے داخلے اور ’’لوڈنگ‘‘، ’’اَن لوڈنگ‘‘ کے لیے اوقات مقرر ہیں، لیکن اُن پر عمل نہیں ہو رہا۔ شہر میں دن کے اوقات میں بھی بڑی گاڑیوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اس طرح شہر میں آبادی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔کمرشل آبادی کے لیے پارکنگ ضروری ہے، جو لوگ کمرشل عمارت تعمیر کرتے ہیں، اس کے نقشہ میں پارکنگ فلور ہوتا ہے، لیکن عمارت کی تعمیر کے بعد ان پر بھی دکانات تعمیر کرکے کرایہ پر دے دیتے ہیں، جس کی وجہ سے شہر میں اِک آدھ پارکنگ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ لوگ مجبوراً سڑکوں پر گاڑیاں پار کرتے ہیں۔ سوات سے پہلی بار وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد سوات کے لوگوں کی اپنے وزیر اعلیٰ سے ڈھیر ساری امیدیں وابستہ تھیں، جن میں سب سے بڑی امید ٹریفک میں کمی لانا تھی، لیکن ابھی تک وزیر اعلیٰ نے بھی اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے اب عوام کی اُن سے امیدیں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں۔

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔