زنجیر کے دوسری طرف

رات بھر سفر کرکے پاکستان کے سرحدی قصبے "تافتان” پہنچے۔ تھکن سے برا حال تھا۔ صبح کا اجالا پھیل رہا تھا۔ میں بس سے اتر کر سیدھا ایک ریستوران میں گیا۔ پانی کے برتن دیکھے، لیکن پانی تھا نہیں۔ ہوٹل والے سے پوچھا، تو کہنے لگے کہ پانی نہیں ہے۔ میں نے کہا صرف اتنا سا پانی چاہیے جس سے میں منھ دھو سکوں۔ کہنے لگے ایک گلاس پانی بھی نہیں۔ میں نے اصرار کیا، تو کہنے لگے کہ پاس ہی مسجد ہے۔ شائد وہاں مل جائے۔ مسجد میں گیا۔ کچھ طلبہ مسجد کے صحن میں بیٹھے کتابیں پڑھ رہے تھے۔ مَیں نے وضوخانہ میں دیکھا، لیکن پانی نہیں تھا۔ طلبہ سے پوچھا کہ تھوڑا سا پانی مل جائے گا؟ کہنے لگے آپ شیعہ ہیں یا سنی؟ میں نے کہا وہ دراصل مجھے منھ دھونے کے لیے کچھ پانی چاہیے تھا۔ کہنے لگے، نہیں، پہلے یہ بتاؤ کہ تم شیعہ ہو یا سنی؟ میں نے کہا، مسلمان ہوں۔ وہ ہنسنے لگے۔ کہنے لگے کہ سنی ہو، تو پانی مل جائے گا۔ میں نے کہا، کیا مسلمان ہونا کافی نہیں؟ صاف انکار کر دیا کہ نہیں۔ بتانا پڑے گا کہ شیعہ ہو یا مسلمان؟
مسجد سے پیاسا ہی لوٹ آیا۔ امیگریشن کا دفتر کھلنے میں ابھی وقت تھا۔ اس دوران میں پتا چلا کہ اس علاقے میں پانی کی قلت ہے۔ ایران سے روزانہ تین ٹینکر پانی سے بھرے ہوئے آتے ہیں اور لوگوں کو "بیاد حسین” پینے کا پانی دے کر چلے جاتے ہیں۔ تافتان کے غیور لوگوں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ ٹینکروں کی تعداد بڑھائی جائے۔ ایرانی حکام شاید ابھی مطالبہ کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ مقامی لوگوں نے ٹینکروں پر پتھراؤ کر دیا۔ اب ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ پہلے ٹینکروں کی حفاظت کی ضمانت دو، پھر پانی ملے گا۔ اس لیے "تافتان” میں کئی دنوں سے کربلا ہے۔
مقررہ وقت سے کوئی چالیس منٹ بعد امیگریشن کا دفتر کھلا۔ قطار تو خیر ہمارے کلچر کا حصہ نہیں۔ لوگ ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے ہوئے امیگریشن افسر سے پاسپورٹ پر خروج کے ٹپے لگوانے لگے۔ میرا بھی ٹھپا لگ گیا۔ سامنے ایک زنجیر لگی ہوئی تھی۔ یہ پاکستان اور ایران کے درمیان حدِ فاصل تھی۔ جوں ہی زنجیر پار کیا۔ دنیا ہی بدل گئی۔ وضو اور نماز کے لیے الگ انتظام اور پینے کے لیے ٹھنڈے صاف پانی کا الگ۔ میرے وہی ہم وطن جو چند قدم پیچھے پاکستانی امیگریشن کے سامنے ہجوم بنا کر کھڑے تھے، اب ایرانی امیگریشن کے سامنے قطار بنا کر کھڑے تھے۔
امیگریشن سے باعزت بری ہوا۔ زاہدان جانے والی بس میں بیٹھ گیا۔ بس کے دروازے پر کنڈکٹر کھڑا تھا۔ ہر مسافر کو "خوش آمدید” اور "بفرمائد” کہہ رہا تھا۔ بس میں داخل ہوا تو ڈرائیور "صاحب” کھڑے تھے۔ ہر مسافر کو مسکرا کر خوش آمدید کہتے اور نشست کی طرف رہنمائی کرتے۔ سفر شروع ہوا، تو کنڈکٹر نے بس کے اندر نصب فریزر سے ٹھنڈا پانی نکالا۔ ہر مسافر کی سیٹ کے اوپر خالی گلاس نصب تھا، جو مسافر ہاتھ اوپر کرکے اپنا گلاس لیتا، کنڈکٹر فوری طور پر پہنچ کر اس کا گلاس بھرتا۔ ساتھ میں مسکراتا اور کچھ خیرمقدمی قسم کے فارسی کلمات بھی کہتا۔ مَیں ابھی تک پاکستانی نفسیات کا اسیر تھا۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہاں سب کچھ اچھا ہے۔
ایران کی سڑکوں، شاہراہوں، گلیوں، مساجد، پارکوں، ہوٹلوں، سنیماؤں، لائبریریوں، بس اڈوں اور در در کی خاک چھاننے میں ایک مہینا گزار کر مجھے احساس ہوا کہ جو گند میرے ذہن کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے، اس کا صاف کرنا اتنا مشکل نہیں۔ بس ایران کی ایک سیر کی دیر ہے۔ وہاں کئی مرتبہ میرے ذہن میں آیا کہ پاکستان کے بلدیاتی منتظمین کو حکومتی خرچے پر ایران کی سیر کروانی چاہیے، تاکہ وہ دیکھیں کہ "شہرداری” کسے کہتے ہیں؟ شہروں کی صفائی اور آرائش کوئی ایرانیوں سے سیکھے۔ یہاں تو صرف اسلام آباد منصوبے کے تحت بنا ہے۔ وہاں لگتا ہے کہ ہر شہر منصوبے کے تحت ہے۔ یقین کرنا مشکل ہے، لیکن کیا کروں! اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں کہ نہ بس اڈے میں شور ہے، نہ بیچ چوراہے غوغا۔ ہر چوراہا سگنل فری ہے۔ درمیان میں بہترین پارک، پارک میں پکنک، پڑھائی اور کھیل۔ ہر طرف امن، شانتی اور صفائی۔ پبلک ٹوائلٹ کی صفائی ہمارے متوسط گھروں سے بھی زیادہ۔ تندور میں روٹیاں لینے کے لیے بھی قطار، قطار میں کئی لوگ کتاب یا اخبار پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں مجھے اچھی طرح ڈرایا گیا تھا کہ ایران میں "سُنی” ہونا جرم ہے۔ میرا تجربہ بالکل مختلف ہوا۔ کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ "آپ شیعہ ہیں یا سُنی؟” پاکستانی ہونا مہمان نوازی کو دوگنا پُرجوش کرنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ کئی جگہوں پر جب معلوم ہوا کہ میں سنی ہوں، تو مزید احترام کا حقدار پایا گیا۔ صرف ایک دو جگہوں پر مجھ سے پوچھا گیا کہ "شیعہ ہو یا سُنی؟” اس کی تفصیل دوسرے موقع پر۔

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔