تہذیبِ مغرب نے دنیا کو جن مصائب میں مبتلا کیا ہے ان میں سے ایک فیشن بھی ہے۔ اگرچہ فیشن کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسان کی، لیکن جدید فیشن جس سے انسان اپنی تہذیب، ثقافت، روایات، مذہب اور کردار و عمل سے بے گانہ ہو جائے، مغرب کا ہی عطا کردہ ہے۔

پہلے زمانہ کے لوگ سادہ زندگی بسر کرنے کے قائل تھے۔ اگر کوئی فیشن کا زیادہ دلدادہ ہوتا، تو ایک حد تک جاتا لیکن اپنی رسوم و رواج اور تہذیب و ثقافت سے بے گانہ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اب دیکھا جائے، تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہمارا نوجوان ایک ایسا بادل ہے جسے فیشن کی آندھی جدھر چاہے اڑا لے جائے۔ ان کا رہن سہن، بود و باش، رسوم و رواج، گفت و شنید، انداز و اطوار اور تراش خراش غرض ہر چیز بدل کر رہ گئی ہے۔ فیشن کے نام پر ایسے ایسے نمونے نظر آتے ہیں کہ انسان انگلیاں دانتوں میں دبانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اب بات مباح امور سے نکل کر فحاشی تک جا پہنچی ہے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے کپڑوں کی ایسی تراش خراش اور وضع قطع ہوتی ہے کہ شرم و حیا سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ یہ نوجوان عوامی مقامات پر فیشن کے نام سے ایسی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں کہ جنہیں لوگ اپنے گھر میں بھی کسی کے سامنے کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح جسمانی وضع قطع ایسی ہے کہ بعض اوقات بے چاروں کی عقل پر ہنسی آتی ہے۔ نوجوان لڑکوں کے سب سے زیادہ نشانہ ان کی ڈاڑھی اور بال بنتے ہیں۔ حالانکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں ان کی حدود بتا دی گئی ہیں۔ لڑکیوں کا سب سے زیادہ نشانہ ان کے بال اور لباس ہوتے ہیں۔ اس پر مستزاد قسما قسم کی لپ اسٹکس، فیس کریمیں اور لوشن ہیں۔ حالانکہ ان اشیا کا نہ صرف روحانی بلکہ جسمانی، معاشی اور معاشرتی نقصان بھی ہے۔ مثلاً بات سمجھنے کے لیے ہم ’’گرین پیس‘‘ کی ایک رپورٹ لیتے ہیں۔ جس میں انہوں نے صرف سستی ٹی شرٹ کے نقصان سے آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کے بیس بڑے ریٹیلرز کی ایک سو اکتالیس ٹی شرٹس کا تجزیہ کیا۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان میں چھیاسٹھ فی صد میں این پی ایز نامی کیمیکل بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ جو جانوروں اور انسانوں کے ’’ہارمونز‘‘ میں خرابی کا باعث بنتا ہے۔

اسی طرح معاشی تجزیہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں ایک کھرب ایک سو ستّر ارب ڈالر کی فیشن کی مصنوعات کی تجارت ہوتی ہے، جن میں دو تہائی حصہ خواتین کے میک اَپ کا سامان ہوتا ہے۔ صرف ہمارے کراچی شہر میں گزشتہ عید کے موقعہ پر ستّر ارب روپے کی خریداری کی گئی۔ جن میں اکثر اشیا فیشن سے تعلق رکھتی تھیں۔ اسی طرح پوری دنیا میں کاسمیٹکس کی ایک سو اسّی بڑی کمپنیاں ہیں جو پوری دنیا کو کاسمیٹکس مصنوعات فراہم کرتی ہیں۔ ان ایک سو اسّی کمپنیوں کو صرف سات کمپنیاں کنٹرول کرتی ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک کمپنی کا بجٹ ہمارے پاکستان کے کل بجٹ کے برابر یا اس سے زیادہ ہے۔ مثلاً پراگٹر اینڈ کیمبل نامی کمپنی نے سن 2016ء میں چھتر ارب ڈالر کی اشیا فروخت کیں جبکہ مشہور عالم کمپنی جانسن اینڈ جانس نے سات ارب ڈالر کاسامان بیچا جبکہ پاکستان کا کل بجٹ اڑتالیس ارب ڈالر ہے۔

اگر ہم اسی چیز کو دوسری نظر سے دیکھیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جن کی ماہانہ آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔ اگر ہم محض جاذبِ نظر آنے کے لیے استعمال کرنے والی اشیا کا استعمال کم کر دیں اور سالانہ سو ارب ڈالر بچائیں، تو اقوامِ متحدہ کے میلینیم ڈویلپمنٹ گولز کے مطابق اس رقم سے نہ صرف غربت کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ ناخواندہ بچے پرائمری سطح تک کی تعلیم بھی حاصل کر سکیں گے۔ اسی طرح زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مرنے والی ترپن لاکھ چھے ہزار خواتین کو بچایا جا سکے گا۔
تیسری جانب ہمارا مذہب و کلچر بھی ہمیں اس چیز کی اجازت نہیں دیتے۔ کیونکہ یہ اشیا فضول خرچی کے ضمن میں آتی ہیں جس سے اسلام نے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔‘‘فیشن میں عموماً غیر قوم کی نقالی کی جاتی ہے جس سے اسلام نے منع فرمایا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہوگا۔‘‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ڈاڑھی منڈے مشرکین آئے، تو آپ نے فرمایا: ’’مشرکین کی مخالفت کرو، تم داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں ترشواؤ۔‘‘ اسی طرح تنگ لباس پہننے والے مرد و خواتین پر لعنت (یعنی اللہ کی رحمت سے دوری) کی گئی ہے۔ اسلام نے تو عورت کو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر اسے خوشبو لگانی پڑتی ہو، تو ایسی خوشبو استعمال کرے جس سے اس کی بو زیادہ دور تک نہ جائے۔

اکیس اگست کو اقوام متحدہ کی چھتری تلے فیشن کا عالمی دن منایا گیا۔ اس کا مقصد عوام الناس کو فیشن کے جدید ترین رجحانات اور ٹیکنالوجی سے متعارف کروانا، نیز علاقائی مارکیٹوں میں بدیسی برانڈز کو متعارف کروانا وغیرہ تھا۔ لیکن اس سارے عمل کا نتیجہ عوام کالانعام کا ایک مادر پدر آزاد تہذیب کا رسیا بننے کے سوا کچھ نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں میں سادگی اختیار کریں۔ اپنے ہر ہر عمل میں اپنے مذہب، ملک، وطن اور تہذیب و ثقافت کا خیال رکھیں۔ اس بارے میں والدین اور اساتذہ کرام کی ذمہ داری دگنی ہے کہ انہیں نئی نسل کی ایسی تربیت کرنی ہوگی جسے حاصل کر کے وہ دین کے سچے داعی، وطن کے پکے سپاہی اور معاشرے کا ایک مفید فرد بن سکیں نہ کہ مغرب کی اس تہذیب کے دلدادہ جسے مغرب و اہلِ مغرب اب خود ترک کر چکے ہیں۔