جب لوگوں نے سفر کرنا شروع کیا، تو ساتھ میں کھانا لے کر جانا اس لیے ضروری ٹھہرا کہ کچھ پتا نہیں ہوتا تھا کہ راستہ میں کتنا وقت لگے گا اور کھانے کو کچھ مل بھی سکے گا یا نہیں؟ اس لیے مسافروں کے کھانے کے لیے ضروری تھا کہ یہ خشک ہو اور ایسا ہو کہ جو خراب نہ ہو، مگر ساتھ ہی میں یہ بھی خواہش تھی کہ اس میں ذائقہ بھی ہو، کیوں کہ بغیر ذائقہ کے کھانا کھانا مشکل ہوتا ہے۔
چین میں 2ہزار سال پہلے خشک کیا ہوا سانپ مسافروں کے لیے اچھی خوراک سمجھا جاتا تھا۔ ہندوستان میں مسافر خشک روٹی اور خشک چاول لے کر چلتے تھے، یا بھنے ہوئے چنے گُڑ کے ساتھ پیٹ بھرنے کے کام آتے تھے۔ اگر مسافر صاحبِ استطاعت ہوتا تھا، تو میٹھی ٹکیاں (ٹکیا چھوٹی روغنی یا سادی گول روٹی ہوتی ہے) بنالی جاتی تھیں۔ پھر اچار اور مربے تھے کہ جو خراب نہیں ہوتے تھے۔
تبت میں چائے کی پتیوں کو ’’یاک‘‘ (Yak) کے مکھن میں ملا کر خوب پکایا جاتا تھا، اور وہ نہ خراب ہونے والا مشروب ہوجاتا تھا، جو غذا کا کام دیا کرتا تھا۔
قدیم زمانے میں جب جہاز پر سفر کیا جاتا تھا، تو اس وقت کوشش ہوتی تھی کہ کھانے کا ذخیرہ کر لیا جائے، جو راستے میں کام آئے۔ سمندر میں سفر کرنے والے مچھلی اور سمندری پرندے کھانے کھا کر تنگ آجاتے تھے۔ خشک غذا جس کا ذخیرہ ہوتی تھی، وہ نمی کی وجہ سے خراب ہوجاتی تھی۔ بسکٹ انتہائی سخت ہوجاتے تھے، اور روٹی کو پانی میں بھگو کر کھانا پڑتا تھا۔ مکھن پگھل کر اپنا ذائقہ خراب کر لیتا تھا، تو پنیر کی نرمی ختم ہوجاتی تھی۔ ان حالات میں جہاز کے مسافروں کو کھانے کی سہولتیں میسر آئی ہیں۔ (ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب تاریخِ کھانا اور کھانے کے آداب مطبوعہ تاریخ پبلی کیشنز لاہور پہلی جلد 2013ء، صفحہ نمبر 40-41 سے انتخاب)