محترم وزیر اعلیٰ صاحب، امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے۔ مَیں آج آپ کو ان سطور کے ذریعے ’’تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پیر بابا‘‘ میں موجود کمزوریوں کے حوالہ سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے، میری یہ تحریر ردّی کی ٹوکری کی نذر نہیں کی جائے گی، اور مکمل انکوائری کے بعد اہلِ بونیر کی داد رسی کی جائے گی۔
جنابِ والا، دراصل ’’تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پیر بابا‘‘ ریاستِ سوات کے دور سے قائم وہ واحد مرکزِ صحت ہے، جو ضلع بونیر کی کثیر آبادی کے لیے علاج معالجے کی سہولیات فراہم کر رہا ہے، لیکن گذشتہ کئی مہینوں سے سیاسی بنیادوں پر لگائے گئے ڈی ایم ایس ڈاکٹر طاہر شاہ نے نہ صرف یہاں کے سینئر ڈاکٹروں کی حق تلفی کی ہے، بلکہ 19 گریڈ کے ایم ایس ڈاکٹر عبدالواحد صاحب کو بھی اپنے ما تحت رکھنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
جناب والا! دراصل صحت، روزگار، تعلیم اور انصاف جیسے اُمور ریاست کی ذمہ داری ہوتے ہیں اور عوام حکومت کو ٹیکس دینے پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کہ ادا شدہ ٹیکسوں ہی کی وجہ سے حکومتیں چلتی ہیں۔ بدلے میں عوامی ادارے عوام کی خدمت کرتے ہیں اور کسی حد تک تحریکِ انصاف حکومت بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
جنابِ والا! لیکن بدقسمتی سے PK-20 بونیر کے حالات دگر گوں ہیں۔ جتنی عوامی رائے میں نے سنی اور تحریری طور پر دیکھی ہے، جتنے لوگوں سے مَیں نے باتیں کی ہیں، اُن میں اکثر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ شکایت کرتے ہیں کہ PK-20 کے ممبر صوبائی اسمبلی ریاض خان جو ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس بنیاد پر لوگوں نے انہیں پہلی دفعہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب بھی کیا ہے، لیکن شائد یہ ان کی نا تجربہ کاری ہے یا شائد اُن پر ایسے ابن الوقت لوگوں کا اثر ہے کہ اُن کے اقتدار سے غلط فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے۔ یوں اب صورتحال اُن کی اور صوبائی حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔
آمدم برسرِ مطلب، مَیں نے ابتدا میں جس ڈاکٹر ظاہر شاہ کا ذکر کیا، اُن کا پہلا کارنامہ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر بہار علی صاحب کو دو مہینوں سے زائد مدت کی رجسٹر میں حاضری لگاکر ان کو ’’پاچا ہسپتال‘‘ سے مذکورہ مدت کی تنخواہ بھی جاری کی گئی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر بہار علی صاحب نے دو دن تک بھی ہسپتال میں ڈیوٹی نہیں دی ہے۔
جنابِ والا! اب ذرا ڈی ایم سی صاحب کا دوسرا کارنامہ ملاحظہ ہو۔ اس کارنامے کو وہ اپنی مجبوری بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک فی میل ’’ای پی آئی ٹیکنیشن‘‘ مسرت نامی خاتون کو بغیر کسی وجہ کے ’’ای پی آئی سنٹر‘‘ سے اٹھا کر لیبر روم لا بٹھایا ہے اور ’’ای پی آئی سنٹر‘‘ میں حاملہ خواتین ’’ٹی ٹی انجکشن‘‘ بھی مردانہ ٹیکنیشن سے لگوانے پر مجبور ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مذکورہ خاتون نے اس سے پہلے نہ کسی ہسپتال کے لیبر روم میں کام کیا ہے اور نہ اب اس حوالہ سے کسی مریض کی تشخیص کرنا جانتی ہے۔ گویا اس خاتون کو محض عوام کی قیمتی جانوں سے کھیلنے کے لیے لا بٹھایا گیا ہے۔ جب کوئی وزٹ کرنے آتا ہے، تو ظاہر شاہ صاحب ان کو باور کراتے ہیں کہ یہ خاتون میری مجبوری ہے اور میں جلد ہی اس کے لیے ایل ایچ وی آرڈر کرادوں گا۔ حالاں کہ مذکورہ ڈی ایم ایس سے پہلے یہاں چار سٹاف نرس ڈیوٹی دے رہی تھیں، جو بڑی خوش اسلوبی سے لیبر روم چلاتی تھیں، مگر آج کل ان کی ڈیوٹیاں تبدیل کرکے ایوننگ اور نائٹ شفٹ میں لگائی گئی ہیں۔ اس حوالے سے کئی بار سوشل میڈیا پر بھی عوامی شکایات آئی ہیں مگر اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ صاحبان علاقہ گدیزی اور پیر بابا کے عوام کی مشکلات کا ازالہ کریں گے۔ ہسپتال میں اور بھی ڈھیر سارے مسائل ہیں، مگر تحریر کی تنگ دامنی آڑے آ رہی ہے۔ امید ہے آپ صاحبان ہمیں اس حوالہ سے مایوس نہیں کریں گے۔

آپ کا خیر اندیش "مل خانخیل” پیر بابا بونیر۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔