سپیشل پولیس فورس کی حالت زار

قارئین، یہ تو ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ جب ملاکنڈ ڈویژن اور سوات میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہوگئی اور سوات پولیس کے جوانوں کو شدت پسندوں نے بے رحمی سے قتل کرنا شروع کیا، تو اس وقت سیکڑوں پولیس اہلکاروں نے محکمۂ پولیس کی نوکری کو خیرباد کہہ دیا اور بتائے بنا وہ پولیس کی نوکری چھوڑ کر چلے گئے۔
سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے بعض اضلاع میں فوجی آپریشن کے بعد جب نقلِ مکانی کرنے والے لوگ واپس آگئے، تو اس وقت پولیس کی نوکری کرنے کے لیے یہاں کے لوگ بالکل تیار نہ تھے، جس کی وجہ سے ریگولر پولیس میں مردان اور دیگر اضلاع کے نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا۔ اُس وقت اے این پی کی حکومت نے 2009ء میں ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع سوات، شانگلہ، بونیر، دیر اَپر، دیر لوئر اور چترال میں اسٹینڈنگ آرڈر نمبر 12/200 کے ذریعے ’’اسپیشل پولیس فورس‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس فورس میں بھرتی کے لیے تعلیمی قابلیت اور عمر کی حد مقرر نہ تھی، جس کی وجہ سے ان اضلاع میں 5500 اہلکاروں کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر ’’فکسڈ سیلری‘‘ 10 ہزار روپے کے عوض بھرتی کیا گیا۔ اس فورس میں بھرتی ہونے والے اہلکاروں کو اپنے ہی پولیس سٹیشن میں تعینات کیا گیا۔ ریگولر پولیس کی تربیت تو محکمۂ پولیس خود ہی اپنے تربیتی سکولوں میں کرتی ہے، مگر سپیشل پولیس فورس کے نوجوانوں کی تربیت اس وقت سوات میں موجود فوج کے جوانوں نے کی، جس کی وجہ سے اس فورس میں شامل جوانوں کی تربیت پاک فوج کے جوانوں کی طرح ہوئی۔ اس کے بعد اس خصوصی فورس کے جوانوں نے عام پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن و امان کے لیے ان اضلاع میں کام کیا۔ 2009ء سے اب تک سپیشل پولیس فورس کے 29 اہلکاروں نے اپنے وطن کے لیے جان کی قربانی دی ہے، لیکن اس کے باوجود ان ہزاروں اہلکاروں کے سر پر کنٹریکٹ ختم ہونے کی تلوار روزِ اول سے لٹکتی رہی۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ان کو ’’چائینہ پولیس‘‘، ’’لسو والا پولیس‘‘ اور اس قبیل کے دیگر ناموں سے پکار کر تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا رہا، لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔
البتہ اے این پی حکومت نے ان اہل کاروں کی تنخواہ میں پانچ ہزار روپے کا اضافہ کیا، جس کے بعد اب تک یہ 15 ہزار روپے ہے۔ ان کے مقابلے میں ریگولر پولیس اہلکاروں کی تنخواہ 30 تا 40 ہزار ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سپیشل پولیس فورس کے اہلکار ریگولر پولیس کی طرح 24 گھنٹوں میں ٹھیک 12 گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں، لیکن پھر بھی کم تنخواہ کے باعث شدید مالی کمزوری سے دوچار ہیں۔ تنخواہ میں عدم اضافہ اورمستقل ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے یہ اہلکار شدید ذہنی کوفت کا بھی شکار ہیں۔
کشیدہ حالات کے دوران میں بھرتی ہونے والے سپیشل پولیس فورس کے ان جوانوں نے پہلے بھی ریگولر پولیس کے ساتھ شانہ بشانہ ڈیوٹی سرانجام دی اور اب بھی دے رہے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ میں انہوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے کیس بھی دائر کیا تھا، جس کا فیصلہ ان کے حق میں ’’دو مرتبہ‘‘ آچکا ہے، لیکن ’’ہنوز دلی دور است!‘‘ جس کی وجہ سے ہزاروں اہلکار احساسِ محرومی کا شکار ہیں اور کئی اہلکار نوکری چھوڑ بھی چکے ہیں۔
قارئین کرام! پرویز خٹک کی پچھلی حکومت نے ان کو ریگولر کرانے کے لیے ایک سمری بھی تیار کی تھی، لیکن دریں اثنا حکومت ختم ہوئی اور نئی حکومت آگئی۔ اس کے باوجود ان کو ریگولر کیا گیا اور نہ حکومتوں نے ہائی کورٹ کے حکم پر عمل ہی کیا۔
جیسا کہ پہلے رقم کیا جاچکا ہے کہ سپیشل پولیس اہلکاروں کو ان تھانوں میں بھرتی کیا جاتا ہے جن کی حدود میں ان کا گھر ہو۔ اس وجہ سے ان کو علاقے کی ہر گلی کوچے کا علم ہوتا ہے۔ یوں اس فورس کی وجہ سے منشیات کی روک تھام میں بھی محکمۂ پولیس کو خاصی مدد مل رہی ہے۔ کیوں کہ مذکورہ پولیس اہلکار اپنے تھانہ کی حدود کے ہر شخص کو جانتے ہیں۔ یہ اہلکار مقامی ہونے کی وجہ سے ہر اجنبی پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کی یہ کارکردگی کیا کم ہے کہ انہوں نے اہم دہشت گردوں کو خودکش جیکٹوں سمیت زندہ گرفتار کیا ہے؟ اس وجہ سے اس فورس کے اہلکاروں کو محکمۂ پولیس نے وقتاً فوقتاً انعامات و اعزازات سے بھی نوازا ہے۔
یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ ریگولر پولیس اہلکاروں کی طرح ایک ہی پولیس سٹیشن، ایک ہی پولیس لائن میں رہنے والے، ایک ہی قسم کی بارہ گھنٹے ڈیوٹی دینے والے، ایک ہی قسم مرنے یا شہادت کا خوف رکھنے والے مذکورہ اہلکار یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ ہم اپنے ریگولر پولیس بھائیوں کی طرح کیوں ڈیل نہیں کیے جا رہے ہیں؟
یہ بھی ظلم ہی ہے کہ ریگولر پولیس کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ملے گی اور ان کو پشتو مقولہ ’’سادر ٹکوھہ او کور تہ زہ‘‘کے مصداق کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد گھر کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔ اس وقت صوبے کے وزیر اعلیٰ محمود خان کا تعلق سوات اور ملاکنڈ ڈویژن سے ہے۔ یہ 5500 اہلکار جن میں خواتین بھی شامل ہیں، وزیر اعلیٰ کے ضلع اور ڈویژن میں تعینات ہیں۔ اس لیے ان ہزاروں اہلکاروں نے اپنے وزیر اعلیٰ سے امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں کہ وہ ان کو مستقل کرکے دم لیں گے، جس کے بعد شائد ایک حد تک ان پولیس اہلکاروں کی مالی مشکلات کم ہو جائیں۔ اگر ان جوانوں کو عدالتی احکامات کے مطابق مستقل ملازمت دے کر ریگولر پولیس میں شامل کیا جائے، تو ان کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ اپنی خدمات احسن طریقے سے انجام پانے میں کامیاب کوئی کسر بھی نہیں چھوڑیں گے۔ اگر ان اہلکاروں کو مستقل نہ کیا گیا، تو یہ اور ان کے اہلِ خانہ ہمیشہ کے لیے احساسِ محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اب گیند ’’خپل وزیر اعلیٰ‘‘ محمود خان کے کورٹ میں ہے۔

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔