جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے مگر ختم نہیں ہوا

بھارتی پائلٹ کی رہائی کے بعد جنگ کا خطرہ بڑی حد تک ٹل چکا، لیکن کشیدگی نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر جنگ کا سا سماں ہے۔ بھمبر سے لے کر نیلم ویلی تک کا سارا علاقہ شدید گولہ باری کی زد میں ہے۔ معمر حضرات بتاتے ہیں کہ اس قدر شدت کی فائرنگ اور گولہ باری انہوں نے 1965ء کی جنگ میں بھی سنی، نہ دیکھی۔
ذرائع ابلاغ کنٹرول لائن کے گرد و نواح میں بسنے والوں پر گزرنے والی قیامت دکھاتے نہیں۔ مبادا کہیں ملک میں غصہ اور انتقام کی آگ نہ بھڑک اٹھے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ بالا کوٹ پر حملہ محض ایک مشق تھا۔ اصل کارروائی ہونا باقی ہے۔ بھارت کے عام الیکشن کا مرحلہ شروع ہونے میں ابھی چند ہفتے ہی باقی ہیں۔
مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر ملک کے طول وعرض میں جلسے جلوس کر رہے ہیں۔ عام الیکشن میں انہیں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنی ہے، تاکہ اپنی مرضی کے مطابق قانون سازی کرسکیں۔ رائے عامہ کو بی جے پی کے حق میں ہموار کرنے کے لیے پاکستان کی مخالفت الیکشن کا بنیادی ایشو بن چکی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے وزیراعظم مودی سمیت ہر کوئی اپنی کامیابیوں اور مستقبل کے عزائم کا ذکر کرتا ہے۔ بی جے پی ہر قیمت پر الیکشن جیتنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ سیاسی مخالفین کو پاکستان کا حامی اور بھارت کا دشمن گردانا جاتاہے۔ ناکامی کا تصور بھی اس کی لغت میں نہیں۔ چناں چہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ بھارت کے الیکشن تمام ہونے تک سرحدوں پر کشیدگی نہ صرف برقرار رہے گی، بلکہ درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔
وزیراعظم عمران خان اور عسکری لیڈر شپ نے رواں اعصاب شکن بحران کے دوران میں صبر و تحمل کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔ پاکستان نے جنگ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وزیرِاعظم عمران خان نہ صرف خود جنون میں مبتلا ہونے سے دور رہے بلکہ پاکستانیوں کو بھی اس بخار سے کامیابی سے نکال باہر کیا۔ ورنہ ہمارے کئی ایک بزرجمہرتو غزوۂ ہند کا اعلان بھی فرماچکے تھے۔ عمومی طور پر کہا جاتا تھا کہ عمران خان جذباتی شخصیت ہیں۔ موقع ملتے ہی وہ مخالفین کے کشتوں کے پشتے لگانے پر تل جاتے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے ثابت کیا کہ وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، اور اپنی مرضی کے مطابق کھیل کھیلنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ چناں چہ آج بھارت کے اندر سے بھی ان کی امن پسندی کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ دنیا کو پاکستان سے اس قدر لچک دار اور ذمہ دار رویہ کی ہرگز توقع نہ تھی۔ گذشتہ دو دہائیوں میں جب بھی کوئی بحران برپا ہوتا، پاکستانی لیڈر شپ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دیتی۔ اس طرح کے بیانات دنیا پر لرزہ طاری کر دیتے۔
پاکستان کا امیج ایک غیر ذمہ دار ملک کے طور پر ابھرتا۔ اس مرتبہ خوشی کی بات یہ ہے کہ سرکاری سطح پر نہ صرف جوہری ہتھیاروں کا ذکر تک نہیں کیا گیا، بلکہ بین السطور بتایا گیا کہ جنگ دونوں ممالک کو آگ میں جھونک سکتی ہے۔ گذشتہ کئی عشروں سے پاکستان کی پالیسی عمومی طور پر بھارت کے ردعمل میں متعین ہوا کرتی تھی۔
بھارتی میڈیا اگر منفی پروپیگنڈا کرتا، تو جواب میں پاکستان اس سے بڑھ کر پروپیگنڈا کرنا ضروری سمجھتا۔ بھارتی لیڈر جنگ کی دھمکی دیتے، تو اسلام آبادسے بھارت کو آگ میں بھسم کرنے کی دھمکی آتی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی لیڈرشپ ردعمل کی نفسیات کا شکار نہیں ہوئی، بلکہ اس نے ’’انی شیٹیو‘‘ اپنے ہاتھ میں رکھا۔
ردعمل کا شکار نہ ہونے سے پاکستان کی دنیا بھر کافی پذیرائی ہوئی، اور اسے ایک ذمہ دار ملک کے طور پر دیکھاگیا۔ موجودہ بحران نے پاکستان کو بھی ایک سنہری موقع دیا، کہ وہ اپنی صفوں میں پائے جانے والے ایسے گروہوں کے خلاف کمربستہ ہو، جو اس خطے میں ایٹمی جنگ کرانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ کشمیر کی تحریک کا چہرہ بگاڑدیتے ہیں اور اسے دوبارہ دہشت گردی کا لبادہ پہنانے کا باعث بنتے ہیں۔ پُرتشدد طریقوں کے استعمال کی دنیا میں اب کوئی گنجائش نہیں۔ ترکی کے سوا کوئی ایک بھی دوست ملک نہیں جس نے کھل کر پاکستانی نقطۂ نظر کی تائید کی ہو، بلکہ امریکی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر نے کہا کہ بھارت کو جوابی کارروائی کا حق حاصل ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران میں کشمیر پر ہونے والی بحث کا رُخ ہی بدل گیا۔ کم ہی تجزیہ کاروں نے لکھا یا بولا کہ اس سارے مسئلہ کی جڑحل طلب تنازعہ کشمیر ہے؟ اس مسئلہ کے حل کے لیے پیش رفت نہیں ہوگی، تو پلوامہ جیسے واقعات روکنے کی ضمانت نہیں دی جاسکے گی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی مصنوعی طور پر کم ہوسکتی ہے۔ حالات میں بہتری بھی آسکتی ہے، لیکن کشمیر میں ہونے والا کوئی بھی حادثہ دونوں ممالک کو دوبارہ جنگ کے دہانے پر پہنچا سکتاہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریروں میں مسئلہ کشمیر پر جو گفتگو کی، دہائیوں پر مشتمل ایک طویل تاریخ اور جدوجہد ہے۔ وزیراعظم عمران خان اس موقع پر اس مسئلہ کے سیاسی حل پر زور دیتے۔ ساتھ ساتھ مذاکرات کے عمل میں کشمیری نمائندوں کی شمولیت کی بھی بات کرتے، تو شائد زیادہ بہتر ہوتا۔ اگر امریکہ قطر میں طالبان سے بات کرسکتا ہے، تو بھارت اور پاکستان ایک ہی نشست میں کشمیری لیڈروں سے کیوں نہیں مل سکتے؟
یادرکھنا چاہیے کہ کشیدگی اور پُرتشدد کارروائیاں عام کشمیریوں کے مصائب میں اضافے کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس طرح فوجی دستوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتاہے۔ عام لوگوں کی زندگی مشکل بنادی جاتی ہے اور سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کی سرگرمیاں پھر ممکن نہیں رہتیں۔
موجودہ بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت اسلامی جموں وکشمیر پر پابندی ہی نہیں عائد کی گئی، بلکہ اس کے سیکڑوں ذمہ داران بھی گرفتار کرلیے گئے جو حالات کو مزید بگاڑنے کی جانب لے جائیں گے۔
بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے سے کشمیریوں پر دباؤکم ہوجاتاہے اور ان کی تحریک کو ملنے والی پذیرائی میں بھی کچھ نہ کچھ اضافہ ہوتا ہے۔
بصورت دیگر ساری دنیا کی توجہ کا مرکز اسلام آباد او ردہلی بن جاتا ہے اور کشمیر کا حل طلب مسئلہ نہ صرف زیرِ بحث نہیں آتا، بلکہ پس منظر میں دھکیل دیاجاتاہے۔

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔